1. ہوم/
  2. افسانہ/
  3. باشام باچانی/
  4. خواب (5)

خواب (5)

ڈاکٹر امجد صاحب کی اہلیہ جب تیسری بار دو چائے کی پیالیاں لے کر مہمان خانے داخل ہوئیں تو وہ دیکھتی ہیں کہ ہر طرف دھوئیں نے ڈیرا جمالیا ہے۔ امجد صاحب کی اہلیہ نے چائے کی پیالیوں کو کوسٹرزسے ڈھک لیا، کہ کہیں دھوا ں چائے کی پیالی میں نہ داخل ہوجائے۔ ڈاکٹر امجداشرف صاحب کے ساتھ پچھلے تین گھنٹے سے مسلسل گفتگو کیے جارہے تھے۔ ان تین گھنٹوں کے دوران انہوں نے 6 چائے کی پیالیاں اپنے مہمان کے ساتھ خالی کیں۔ وہی سوفے، وہی کرسیاں، لیکن دھوئیں نے کمرے کا نقشہ بدل دیا تھا۔ امجد صاحب کی اہلیہ کھانستے ہوئے کمرے میں داخل ہوئیں۔ وہ دیکھتی ہیں کہ دونوں حضرات ایک ہی سگریٹ کا استعمال کر رہے ہیں۔ (بچی ہی ایک تھی، لہذا دونوں نے بانٹ لی۔) دونوں میں سے جس کے ہاتھ میں سگریٹ تھی وہ ایک کش لگا رہا تھا اور پھر دوسرے کو سگریٹ پکڑا رہا تھا۔ اس قدر تیز رفتاری کے ساتھ تمباکو نوشی کی جارہی تھی کہ پورا کمرا آلودہ ہوگیا۔ اور گفتگو کچھ اس طرح کی جارہی تھی جیسے دونوں بچپن کے یار ہوں۔ البتہ ابھی چند گھنٹے پہلے دونوں کے درمیان فون پر تلخ کلامی ہوئی تھی۔ جب امجد صاحب کی اہلیہ صاحبہ نے راکھدان پر نظر جمائی تو دیکھا کہ اچھی خاصی تعداد میں سگریٹ جلائی گئی تھیں۔ (اور یہ سب ایک گھنٹے میں!)

"امجد صاحب!" اہلیہ صاحبہ فرمانے لگیں، چائے کی طباق کو میز پر رکھتے ہوئے۔"آپ کو شرم نہیں آتی۔ ڈاکٹر ہوکر اتنی تمباکونوشی؟ اتنی بار منع کیا ہے، لیکن آپ ہیں کہ۔۔۔ خیر۔"

امجد صاحب کی اہلیہ یہ کہہ کر فوراً کمرے سے باہر چلی گئیں۔ اور بیچارے امجد صاحب کہتے رہے:

"ارے سنو تو یار!۔۔۔ رکو۔۔۔ مجھے سمجھانے تو دو۔"

لیکن ان کی اہلیہ صاحبہ نے ان کی ایک نہ سنی۔

"اشرف صاحب!یہ دیکھیں۔"امجد صاحب نے چائے کی پیالی پکڑتے ہوئے کہا۔"آج آپ کی وجہ سے میری پوری رات برباد ہوجائے گی۔ محترمہ کی ناراضگی۔۔۔ توبہ!استغفار!اللہ کرے آج تو جلدی غصہ پی لیں محترمہ!"

اشرف صاحب فرمانے لگے:

"محترم!آپ نے خود ہی بھابھی صاحبہ کو ڈھیل دی ہوئی ہے۔ مجھے دیکھیں۔ مجال ہے کہ ہماری اہلیہ صاحبہ ہمیں اس طرح روک سکیں۔"

"روکا تو انہوں نے بھی نہیں۔ بس غصہ کر جاتی ہیں۔"امجدصاحب بولے۔"چائے میں چینی کتنی ڈالوں؟ "

"او ہو!امجد صاحب!"اشرف صاحب مسکرائے۔"قبلہ!اتنی بار آپ پوچھ چکے ہیں۔ میں کتنی بار بتاؤں؟ تین چمچ یار!"

"خیر، میں نے سوچا پھر بھی دریافت کرلوں۔"امجد صاحب نے چمچ کے ذریعے چینی کو چائے میں ملانا شروع کیا۔"تو ہم کیا فرما رہے تھے؟ "

اشرف صاحب فوراًبولے۔"یہ کہ آپ کی اہلیہ منع نہیں کرتیں لیکن غصہ کرتی ہیں۔ غلطی آپ کی ہے۔ ان کے غصے کو آپ نے قیمت عطا کی ہے۔"

"وہ کیسے بھلا؟ "امجد صاحب نے چائے کی پیالی اشرف صاحب کو پیش کرتے ہوئے پوچھا۔

اشرف صاحب نے چائے کا ایک گھونٹ لیا، اور پھر بولے۔"گوڈ!ویری گوڈ!"

ڈاکٹر امجد کہنے لگے۔"گوڈ کو چھوڑئیے۔ میرے سوال کا جواب دیجیے۔"

اشرف صاحب ایک دوسرا گھونٹ لینے کے بعد بولے۔"وہ ایسے کہ وہ غصہ ہی نہیں کریں گی اگر آپ ان کو منائیں گے نہیں۔ آپ ان کے غصے کو اہمیت دیتے ہو، اسی لیے تو وہ ایسا کرتی ہیں۔ ان عورتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ ورنہ سر پر چڑھ جاتی ہیں۔"

امجد صاحب نے اپنی چائے کی پیالی پکڑی، اور پھر بولے۔"مطلب آپ کہہ رہے ہیں کہ میں انہیں بس ایسے ہی چھوڑ دوں۔ وہ غصہ ہوں، کچھ بھی ظاہر کریں، میں لاپروا ہوجاؤں؟ "

"بالکل!"اشرف صاحب بولے۔"بلکہ ایک وقت آئے گا کہ وہ نہ غصہ کریں گی، نہ آپ کو تنگ کریں گی کہ "یہ نہ کرو، وہ نہ کرو۔"خاموش رہیں گی۔ آپ کی تابع دار رہیں گی۔ فی الوقت تو—معاف کیجیے گا!—تابع داری کا کام آپ کے ذمے ہے۔ اتنے زن مرید نہ بنیں آپ!"

مزید وہ کہنے لگے:

"کسی چیز کواہمیت دیں گے، تبھی تو وہ چیز میسر ہوگی۔ اگر بازار میں ایک چیز کی مانگ ہی نہ ہو، تو فراہمی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔"

"صحیح کہا آپ نے۔"امجد صاحب چائے کا ایک گھونٹ لے کر بولے۔"بالکل صحیح فرمایا آپ نے۔"

اچانک بجلی کی کڑک نے امجد صاحب کو چوکنا کردیا۔ آسمان سے مینہ برسنے لگا۔ بھلا ہو واپڈا کا، بجلی بھی منقطع ہوگئی۔ اندھیرے میں امجد صاحب اشرف صاحب سے فرمانے لگے:

"محترم!ویسے میں کسی مہمان کو یہ کہتا نہیں، لیکن ابھی آپ کو جانا چاہیے۔ برسات نے مزید شدت اختیار کی تو۔۔۔ آپ تو معلوم ہے ہمارے پاکستانی رستوں کا۔۔۔ آپ کو تیر کر گھر جانا پڑے گا۔"امجد صاحب مسکرائے۔"گھر پہنچنا آپ کے لیے مشکل ہوجائے گا۔ آئیے، میں آپ کو گھر چھوڑ آؤں۔"

ادھر، دوسری جانب، مریم، سارہ اور جمیلہ صاحبہ پریشان تھیں۔ اشرف صاحب چہل قدمی کے لیے نکلے تھے اور ابھی تک وہ گھر نہیں آئے۔ برسات کی وجہ سے جمیلہ صاحبہ کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ مریم بولی:

"ڈاکٹر صاحب سے فون کرکے پوچھیں؟ شاید ان کے پاس گئے ہوں۔"

جمیلہ صاحبہ بولیں :

"اے لڑکی!تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے کیا؟ دیکھا نہیں تھا تم نے:کیسے فون پر ان کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آرہے تھے۔ وہاں وہ نہیں جاسکتے۔"

"پھر؟ "سارہ نے پوچھا۔

"بس اللہ رحم کرے!"

مریم زور دار آواز میں چلائی۔"امی!ابو آگئے۔"

"یا اللہ!"جمیلہ صاحبہ نے اپنے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔"اس لڑکی کی چیخ ایک دن مجھے آپ کے پاس منتقل کردے گی، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ ان شاء اللہ!"

اشرف صاحب گھر داخل ہوتے ہی کہنے لگے:

"جلدی کھانا لگاؤ، بھوک لگ رہی ہے۔"

جمیلہ صاحبہ نے مریم کو کہا۔"جاؤ، جاکر جلدی میز پر کھانا لگاؤ۔"

مریم باورچی خانے گئی، اور یہاں جمیلہ صاحبہ نے سوالات کی فہرست اشرف صاحب کو پیش کردی:

"کہاں گئے تھے آپ؟ خیریت تو ہے؟ اتنی دیر؟ بتاکر تو جاتے۔ ہم اتنے پریشان تھے۔"

"کچھ نہیں۔"اشرف صاحب نے کرسی پر تشریف رکھتے ہوئے کہا۔"وہ میں ڈاکٹر امجد کے پاس چائے پینے گیا تھا۔"

جمیلہ صاحبہ ششدر رہ گئی۔ امجد صاحب؟ اوپر سے ان کے پاس چائے۔ چند دن پہلے اشرف صاحب نے فرمایا تھا چائے نہیں پینی چاہیے، چائے سے مسلمان مردوں کی مردانگی پر منفی اثر ہوتاہے۔ اچانک ایسا یو ٹرن؟ مریم باورچی خانے تھی، ورنہ ضرور چلاتی:

"دیکھا امی!میں نے کہا تھا نا!"

کھانے کی میز پر اشرف صاحب اہلِ خانہ کے ساتھ جب کھانا کھانےلگے، تب جمیلہ صاحبہ سے رہا نہیں گیا۔ انہوں نے پوچھ لیا:

"آپ نے چائے پی امجد صاحب کے پاس؟"

"ہاں!"اشرف صاحب نے روٹی کا ٹکڑا شوربے کے ساتھ ملاتے ہوئے کہا۔

"آپ تو ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اور چائے کے بارے میں آپ نے کہا تھا۔۔۔"

(جاری)

باشام باچانی

باشم باچانی  ٹیچر ہیں اور 2012ء سےشعبہ تعلیم سے وابسطہ ہیں ۔ مطالعے کا بے حد شوق ہے اور لکھنے کا اس سے بھی زیادہ۔تاریخ، اسلامیات، اور مطالعہ پاکستان پسندیدہ مضامین ہیں۔ ناول کے مصنف اور کالمز تحریر کرتے ہیں۔