1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. فیصل شہزاد/
  4. تیمار داری

تیمار داری

فیس بک پر کمنٹ یا لائیک ہو، شادی بیاہ میں شرکت ہو، کوئی دعوت ہو، لوگ کسی کے بلانے پر یا بعض دفعہ بن بلائے بھی محض اس لیے جانا ضروری سمجھتے ہیں کہ کل کلاں اگر یہی صورتحال ہمارے ساتھ بن پڑی تو دوسرے لوگ بلا جھجھک آجائیں، جس سے ہماری عزت رہ جائے۔ فیس بک کا حوالہ بھی میں اس لیے دے رہاہوں کہ آج کل عام فہم ہے کیونکہ یہاں بھی وٹہ سٹہ کی شادی کی طرح اگر آپ لائیک اور کمنٹس کرتے ہیں تو لوگ جوک در جوک آپ کی تصاویر اور پوسٹس کو سراہتے ہیں، رونق بخشتے ہیں۔

بیمار پرسی یعنی ہمارے معاشرے میں ویسے تو سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے۔ لیکن درج بالا مثالوں کی طرح یہ بھی ایک ہاتھ سے دے اور دوسرے ہاتھ سے لے والی ضرب المثل بن چکی ہے۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو مجھے بھی کسی کی تیمارداری کرنے کا اتفاق ہوا۔ جس میں ہمیں نہایت دلچسپ صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔

میں اپنے دو دوستوں کے ساتھ اپنے سینئر کولیگ کی تیماری داری کے لیے ہسپتال پہنچا۔ وارڈ میں جب ہم داخل ہوئے تو وہاں ہمارے سینئر جن کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ انجیو گرافی کے بعد ڈاکٹروں نے ان کے دل کے والو میں اسٹنٹ ڈالنے کا فیصلہ کیا، لیکن ہمارے سینئر اتنی بیماری کے باوجود بھی کافی پرسکون اور بہتر نظر آرہے تھے۔

سلام دعا کے بعد ہماری ان سے گپ شپ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے آپ کو کافی بہتر بتایا، اور ان کا کہنا تھا کہ ہارٹ اٹیک تو ہوا ہے لیکن کوئی تکلیف وہ محسوس نہیں کر رہے۔ جس پر ہمیں بھی کافی خوشی ہوئی۔

میرے ساتھ جانے والے دوست بھی اس گپ شپ میں شریک ہو گئے اور میرے ساتھ جانے والے دوست کو ہمارے سینئر نے وہ جوس جو ہم ساتھ لے کر گئے تھے پینے کا کہا، میرے دوست نے جوس کی بجائے سائیڈ ٹیبل پر پہلے سے پڑی سیون اپ، جس پر ان کی نظر آتے ہی پڑ چکی تھی، اس کو پینے کا فیصلہ کیا کیونکہ دن کو کھانا زیادہ کھانے کی وجہ سے دوست چاہتے تھے کہ زرا ہاضمہ درست ہو جائے۔ ہمارے سینئر نے ڈسپوزیبل گلاس جس میں پہلے سے کوئی پائن ایپل کا جوس پی چکا تھا وہی ڈسپوزل گلاس میرے دوست کی جانب بڑھایا، وہ گلاس اس جوس کی وجہ سے نہایت بد مزا ہو چکا تھا۔ میرا دوست کشاں کشاں، ٹھنڈی ٹھار سیون اپ کی طرف بڑھا، جب بوتل کو ہاتھ لگایا تو وہ ٹھنڈی بھی نہ تھی اور جب اس کا ڈھکن کھولا گیا تو اس میں سے " پُھس " کی آواز بھی نہ نکلی لیکن میرا دوست ہاضمے کے لیے سیون اپ کے چکر میں اتنا مگن تھا کہ اس کو زرا بھی احساس نہ ہوا کہ وہ کیا پینے جا رہاہے۔

بہرحال اس (ظالم) نے گلاس پورا بھر کر میری طرف بڑھایا تاکہ پہلے میں سرفراز ہو جائوں، میں چونکہ اس وقت اپنے سینئر سے گپ شپ میں مصروف تھا۔ یہ کاروائی دیکھ تو رہا تھا لیکن اس کی سنگینی کا احساس نہ کر سکا، جب میں نے "ٹھنڈی ٹھار" سیون کا پہلا گھونٹ بھرا تو حلق سے اترنا تو دور کی بات وہ مییرے دانتوں میں ہی اٹک گیا۔ منہ میں جاتے ہی مجھے 100 فی صد یقین ہو چکا تھا کہ یہ وہ پانی ہے جو ہمارے سینئر کے یہاں ایڈمٹ ہونے سے بھی پہلے کسی میریض کا یہاں رہ گیا تھا اور ہمارے سینئر نے اس پانی کی بوتل کو ہاتھ لگانا بھی گوارا نہیں کیا چہ جائیکہ اس کو باہر پھینک دیاجاتا۔

ہمارے سینئر کیونکہ ہم سب سے گپ شپ میں مصروف تھے انہوں بھی ذرا احساس نہیں ہوا کہ ہم جس " آبِ حیات " سے مستفیذ ہونے جارہے ہیں انہوں نے بھی ہمیں اس سے نہی روکا بلکہ ہمیں یہ ریکارڈ قائم کرنے کا پورا پورا موقع فراہم کیا۔

مرتا کیا نہ کرتا، نہ کلی کی جا سکتی تھی۔ اور نہ اس گھونٹ کو نگلا جا سکتا تھا بہرحال آخر کار خدا کو حاضر ناظر جان کر وہ گھونٹ میں پی ہی گیا لیکن اس سے اگلا گھونٹ پینے کا شرف میں نے اسی دوست کو عطا کیا جس نے یہ آب حیات یعنی سیون اپ ہاضمے دار پینے کا فیصلہ کیا تھا۔ کیونکہ یہ اس کی سزا بھی تھی۔

جناب ِ والا ہمارے دوست نے بھی جب پہلا گھونٹ پیا تو اس کی غمناک نظریں میری نظروں سے ٹکرائیں تو میرے چہرے پر وہ آج کی تیماری داری کا ثواب پڑھ چکا تھا۔ اس نے اپنے سزا پر اپنے ہاتھوں سے عمل درآمد کرواتے ہوئے آدھا گلاس پینے کا دو ٹوک فیصلہ کیا۔ اور آنکھوں میں تیرتی نمی اور اپنے سینئر کو دعائیں دیتے ہوئے تھوڑی دیر کے بعد وہاں سے ہم سب رخصت ہوئے۔

باہر نکل کر ہم نے پورے چار سو روپے لگا کر اپنے منہ کا ذائقہ بدلا، اور اپنے دوست کو مبارکباد پیش کی۔ ہمارے دوست آج تیماری داری کے کافی دنوں کے بعد بھی اس ذائقے کو بھلا نہیں پا رہے اور جب بھی پانی پیتے ہیں ان کو پانی سے "پُھس ُپھس " کی آواز آتی ہے۔