1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. فیصل شہزاد/
  4. وہ، یہ بھی کر لے گا

وہ، یہ بھی کر لے گا

صوبہ سرحد (موجودہ کےپی کے) والوں کی طبیعت کو آج تک کوئی سمجھ نہیں پایا، ان کا سیاسی نقطہ نظر باقی صوبوں سے ہمیشہ جدا ہی رہا ہے، وہ ہر بار ایک نئی پارٹی، ایک نئی حکومت کو موقع دیتے ہیں۔ صوبہ سرحد والوں کے بارے میں یہی مشہور ہے کہ وہ ایک پارٹی کو دوبارہ نہیں آزماتے۔ ن لیگ، اے این پی، جے یو آئی، اور پھر پی ٹی آئی جیسی جماعتوں کو آزمایا یعنی ہر بار ایک نئی پارٹی کو موقع دیا۔ 2018 کے الیکشن یہاں بھی تبدیلی لے آئے اور صوبہ سرحد یعنی کے پی کے والوں نے پی ٹی آئی کو ہی دوبارہ ووٹ دے کر اور بھاری اکثریت سے اسمبلیوں میں پہنچا دیا۔ جبکہ پنجاب میں پچھلے 10 سال سے بہترین کارکردگی کے باوجود ن لیگ کو حکومت کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔

میں آپ کو 2013 کے الیکشن سے بھی دو ماہ یا تین ماہ پہلے کی صورتحال کی طرف لے کر جانا چاہتا ہوں، جہاں پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری دن تھے۔ کون سا مسئلہ تھا جو کہ حل طلب نہ تھا۔ دہشت گردی، فرقہ پرستی، لوڈ شیڈنگ، اداروں کی ناقص کارکردگی، ریلوے کا زوال، پی آئی آئے کا زوال، صحت اور تعلیم کی بد تر حالت حتیٰ کہ ہر طرف مسائل کا انبار تھا جو کہ الیکشن کے بعد آنے والی حکومت کے درد سر بننے والا تھا۔ اور یہ نئی آنے والی حکومت کے لیے بہت بڑا امتحان تھا۔ الیکشن میں تو تمام پارٹیاں ہی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھیں لیکن جیتنے کے بعد یہ مسائل سبھی کو پریشان کیے جار ہے تھے کہ ہم کیسے ان سے عہدہ براء ہو سکیں گے۔

پھر الیکشن ہوئے، جس طرح کہ ہوتے آئے ہیں، ن لیگ کو مرکز اور پنجاب میں اکثریت حاصل ہوگئی۔ کہا گیا کہ شہباز شریف کی پچھلے پانچ سال کی بہترین کارکردگی سے ن لیگ کو مرکز میں حکومت بنانے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ بہرحال ن لیگ نے مرکز میں حکومت بنائی اور پنجاب میں بھی باآسانی شہباز شریف وزیراعلیٰ بن گئے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی حسب روایت کامیاب ہوئی۔ بہت دلچسپ صورتحال "کے پی کے" میں تھی، جہاں کسی بھی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہ تھی۔ لیکن پی ٹی آئی کی باقی پارٹیوں سے نشستیں زیادہ تھیں، ان کو ہی حکومت بنانی چاہیے تھی، ان حالات میں مولانا فضل الرحمن ن لیگ کے سربراہ نواز شریف سے ملے جو نئے وزیراعظم بننے جا رہے تھے، مولانا نے ان کو مشورہ دیا کہ ہم یعنی ن لیگ اور جے یو آئی ف دونوں پارٹیاں مل کر کے پی کے میں حکومت بناتے ہیں۔ اس وقت آپ کو یاد ہوگا کہ کے پی کے دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر تھا۔ ان حالات میں وہاں حکومت کرنا اور تمام مسائل حل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ نواز شریف نے اپنے تئیں یہی سوچا کہ وہاں اگر حکومت بنا بھی لی جائے تو کامیابی ممکن نہیں ہوگی۔ لہذا انہوں نے مولانا فضل الرحمن کا مشورہ رد کردیا اور پی ٹی آئی کو موقع دیا کہ وہ حکومت بنائے۔

یہ دریا دلی نہ تھی بلکہ پی ٹی آئی کو دہشت گردی کی دلدل میں دھکیلا گیا تاکہ وہ اس میں دھنس کر تباہ ہو جائے لیکن پھر کیا ہوا، پی ٹی آئی نے حکومت بنائی اور بغیر کسی اضافی محنت کے وہاں کامیاب بھی ہو گئی، کیونکہ دوسری طرف ن لیگ کی مرکزی حکومت نے جو پورے ملک میں انقلابی اقدامات کیے، دہشت گردی اورلوڈ شیڈنگ پر قابوپایا گیا جس میں تمام اداروں اور خاص کر فوج نے اہم کردار ادا کیا۔ ان ہی کاوشوں کا فائدہ پورے ملک کو ہوا، جس میں کے پی کے بھی شامل تھا۔ کے پی کے والے جو کہ کسی بھی پارٹی کو دوبارہ نہیں آزماتے انہوں نے دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ کی بہتر صورتحال کو دیکھا تو الیکشن 2018 میں دوبارہ پی ٹی آئی کو دوبارہ ووٹ دے کر اکثریت سے کامیاب کرا دیا۔

ن لیگ جس نے اتنی محنت سے پانچ سالوں میں بے پناہ مسائل پر قابو پایا اور کئی کامیابیاں حاصل کیں، مرکز اور پنجاب دونوں میں اپنی حکومت بنانے میں ناکام رہی، اس کی وجہ چاہے کچھ بھی ہو لیکن اب کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی مرکز، پنجاب اور کے پی کے میں حکومت بنا چکی ہے۔

آج پھر مولانا فضل الرحمن، نواز شریف سے مل رہے ہیں اور نئی حکومت کو بدعائیں دی جا رہی ہیں تاکہ یہ ناکام ہوجائے اور ہمیں دوبارہ موقع مل جائے۔ نئی حکومت کے مطابق مسائل کا انبار ہے، یہ درست ہے کہ 2013 کے مقابلے میں آج مسائل بہت کم ہیں دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ پر قابو پایا جا چکا ہے، آج نئے پروجیکٹ شروع کرنے کے لیے پلاننگ کے ساتھ ساتھ سرمایہ کی کمی ہے۔ جس کے لیے پی ٹی آئی کی حکومت اپنی کوششیں کر رہی ہے۔ جبکہ اپوزیشن جس میں ن لیگ، جے یو آئی ف، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی شامل ہیں ان کی کوشش ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت ناکام ہو جائے۔ اور 60 دن بعد ہی حکومت گرانے کے لیے سرجوڑ لیے گئے ہیں۔ لیکن میرا کہنا ہے کہ وہ، یہ بھی کر لے گا۔

میں پی ٹی آئی کا کبھی بھی حمایتی نہیں رہا، میں تبدیلی کا کبھی حامی نہیں رہا، میں پرانے پاکستان کا ہی قائل ہوں لیکن پتہ نہیں مجھے کیوں یہ لگ رہا ہےکہ وہ، یہ بھی کر لےگا۔ اب میرا اشارہ کس کی طرف ہے وہ آپ بخوبی سمجھتے ہیں، مجھے نام لینے کی بھی ضرورت نہیں۔

اپوزیشن کے لیڈران پر کرپشن کے کیس کھل چکے ہیں، آئے روز کسی نہ کسی کو نیب گرفتار کر رہی ہے اور جیل میں ڈالا جا رہا ہے، یہی منشور پی ٹی آئی کی حکومت پچھلے پانچ چھ سال سے لے کر چل رہی ہے کہ ملک میں کرپشن ہے اور پی ٹی آئی کی حکومت نہ صرف کرپشن کو ختم کرے گی، بلکہ کرپشن کرنے والوں کو قرار واقعی سزا بھی دلوائے گی۔ اب کرپشن چارجز پر گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ سیاسی پارٹیاں ان گرفتاریوں کو انتقامی کاروائی کہتی ہیں، دوسری طرف یاد کریں تو شہباز شریف 2013 کے الیکشن کی کمپین میں علی بابا چالیس چوروں کو پکارا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہماری حکومت آئی تو ہم کرپشن کا پیسہ، ان کے پیٹ پھاڑ کر نکالیں گے لیکن ن لیگ کی حکومت نے ایسا کوئی اقدام نہیں کیا۔ جس کسی پر جائز کیس بھی کرپشن کے بنے ان پر الزام لگا کہ یہ سیاسی انتقام لے رہے ہیں لہذا انہوں نےکرپشن کے کیسز پر کوئی خاص دھیان نہیں دیا بلکہ پانچ سال دہشت گردی، لوڈشیڈنگ اور میٹرو پر توجہ دی۔ ن لیگ کی حکومت اس میں کامیاب بھی ہوئی۔

اب پی ٹی آئی برسراقتدار ہے جن کا یہ نعرہ رہا ہے کہ وہ کرپشن کو نہ صرف ختم کریں گے بلکہ کرپشن کرنے والوں کو کیفر کردار تک بھی پہنچائیں گے۔ اب یہ ان سے کون پوچھے کہ پی ٹی آئی قیادت کی اکثریت بھی کرپشن کرنے والوں سے بھری پڑی ہے، اب پی ٹی آئی کا طوطی بولتا ہے اور چراغ تلے اندھیرا کے مصداق دوسروں کی کرپشن کو ختم کرنے اور ان کو پکڑنے میں مصروف عمل ہیں۔ دیگر کئی اور کام ہیں جو انہوں نے کرنے ہیں۔

حکومت کو ابتدائی 60 دنوں میں بے پناہ مسائل کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہے۔ اور اپوزیشن یہ دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہور ہی ہے کہ یہ حکومت اب گئی کہ کل گئی۔ لیکن مجھے پتہ نہیں کیوں لگ رہا ہے کہ وہ، یہ بھی کر لےگا۔