1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. فاخرہ بتول/
  4. فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں

فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں

ہیلن کیلر کہتی ہے کہ دنیا کی بہترین اور خوبصورت چیزیں دیکھی نہیں جا سکتی نہ ہی انہیں چھوا جا سکتا ہے۔ انہیں دل کے ذریعے محسوس کیا جاسکتا ہے۔ آج ایک خبر نظر سے گزری، یوسف سلیم پاکستان کے پہلے نابینا سول جج مقرر ہوئے۔ یوسف سلیم نے اپنے تاثرات کا اظہار کچھ یوں کیا کہ میں نے شوق سے قانون کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اور فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کے لئے عدالتی مشن میں شریک ہوا ہوں۔

فوری اور سستے انصاف کی فراہمی خوش آئند اور ہم سب کی حسرت ہے۔ لیکن کیا سال ہا سال پر محیط اس اندھے قانون سے امید لگائی جا سکتی ہے؟ نابینا جج کی تقرری بہت اچھی بات ہے کیونکہ میرے خیال میں بصارت سے محرومی، بصیرت سے محرومی سے بدرجہا بہتر ہے۔ ہیلن کیلر "three days to see" بینائی کے تین دن کی حسرت لئے دنیا چھوڑ گئی۔ لیکن وہ اپنے بعد کے آنے والے لوگوں کے لئے بہت سے سوچ، دریچے وا کر گئی ہے۔ اپنی اندھیری دنیا سے دیگر لوگوں کے لئے زندگی کے امکانات روشن کر گئی۔ کیونکہ واقعی اگر ہم زندگی میں زندوں والےکام نہیں کر رہے تو ہم سانس لیتے ہیں لیکن ہمارا شمار زندوں میں نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ہم صرف انہی چیزوں کو دیکھتے ہیں جن کو ہم دیکھنا چاہتے ہیں تو بھی ہمارا شمار بصارت رکھنے والوں میں نہیں کیا جاسکتا۔ فرض کریں ہم خدا ناخواستہ تین دن کے لئے بصارت سے محروم ہو جائیں تو ہماری کیا کیفیات ہوں گی؟ کیونکہ ہیلن کیلر نے تو تین دن بینائی کے ساتھ لکھ کر بتا دیا کہ وہ اپنی بصارتوں کو کیا کیا معراج کروائے گی۔ اصل میں یہیں سے بصیرت کو بصارت پر فوقیت عطاہوتی ہے۔ ورنہ آنکھوں والے اندھے تو ہمارے چاروں طرف معاشرے میں بکھرے ہوئے ہیں۔ جن کو دکھائی دیتا ہے لیکن سجھائی نہیں دیتا۔

میرے سامنے ایک ماں ہےجو اپنے دو معصوم بچوں کوایک ریستوران میں خوش خوش لے کر جارہی ہے اور کچھ دیر بعد زہریلے کھانے کی وجہ سے 18 مہینے کے احمد اور پانچ سال کے محمدسے محروم ہو جاتی ہے۔ یہ خبر ہے، اخبار نے لگا دی۔ ہم نے پڑھ لی۔ کیونکہ ہم پڑھ سکتے ہیں، آنکھیں رکھتے ہیں۔ لیکن ہوگا کیا؟ اس خبر کو بھی ہم بھول جائیں گے۔ لیکن نہیں بھولے گی وہ ماں جس کو ہر پل ان معصوم بچوں کی یاد خون کے آنسو رلائے گی۔ وہ بچے تو ظلم اور غفلت کاشکار ہوگئے، مٹی میں سو گئے، لیکن اب وہ ماں پل پل مرے گی۔ کیونکہ یہی ہوتا چلا آیا ہے۔ کیونکہ ہم لوگ آنکھوں والے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں لیکن محسوس نہیں کرتے۔ ہم بولتے ہیں جہاں ہمیں خاموش رہنا چاہئے اور خاموش رہتے ہیں جہاں بولنا چاہئے۔

آئے دن مدارس میں نام نہاد ملاں بچوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے ہیں، لیکن والدین آنکھیں رکھتے ہوئےان ہی مولویوں کے پاس اپنے معصوم بچوں کو پڑھنے کے لئے بھیجتے ہیں۔ پھر ان معصوم بچوں کی لاشیں ملتی ہیں۔ احتجاج ہوتا ہے، خبریں چمکتی ہیں۔ گرفتار ہونے والے مجرم رہا ہو جاتے ہیں اور ہم کو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ آخر یہ آنکھیں، یہ عقل کس لئے دی ہے اللہ نے؟ کیا ان شکاریوں کے پاس اپنے معصوم پھولوں کو بھیجنے والے اسی معاشرے میں نہیں رہتے؟ کیا وہ ان خبروں کو نہیں دیکھتے، نہیں پڑھتے اور نہیں سنتے؟ لیکن کیا کریں وہ سب آنکھوں والے اندھے ہیں۔

ہم زندگی نہیں گزار رہے بلکہ زندگی ہمیں گزار رہی ہے۔ کیونکہ ہم جی کب رہے ہیں، ہم تو صرف سانس لے رہے ہیں۔ ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ یوسف سلیم صاحب پاکستان کے پہلے نابینا سول جج مقررہوئے ہیں۔ اللہ پاک ان کو سلامت رکھے اور جس فوری انصاف کی وہ بات کررہے ہیں اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ اگر ایساہی ہونے لگا تو جرائم میں کمی آجائے گی اور کسی ماں کی گود اجاڑنے کی جرات کوئی نہیں کر سکے گا۔

فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں

حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

فاخرہ بتول

فاخرہ بتول نقوی ایک بہترین شاعرہ ہیں جن کا زمانہ معترف ہے۔ فاخرہ بتول نے مجازی اور مذہبی شاعری میں اپنا خصوصی مقام حاصل کیا ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ فاخرہ بتول کی 18 کتب زیور اشاعت سے آراستہ ہو چکی ہیں جو انکی انتھک محنت اور شاعری سے عشق کو واضح کرتا ہے۔ فاخرہ بتول کو شاعری اور ادب میں بہترین کارکردگی پر 6 انٹرنیشنل ایوارڈز مل چکے ہیں۔