1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. فاخرہ بتول/
  4. جنگلی جانور ہی اچھے ہیں

جنگلی جانور ہی اچھے ہیں

زندگی کیا ھے؟

موت کی عدم موجودگی

یعنی موت زندگی کی عدم موجودگی کا نام ہے۔

کریمِ کربلا حسین ابن علی ع نے اپنے 18 سال کے فرزند شہزادہ علی اکبر ع سے شبِ عاشور ایک سوال کیا تھا جو تاریخ کے ماتھے پر تا ابد

چمکتا رہے گا۔

مولا پوچھتے ہیں۔ ہزاروں سال کی زندگی بھی ہو تو انجام کیا ہے؟

شہزادے نے فرمایا موت

مولا نے پوچھا سو سال کی زندگی ہو تو۔ ۔ ۔؟

شہزادے نے فرمایا موت

مولا نے پوچھا اور 18 سال کی زندگی ہو تو۔ ۔ ۔؟

ہمشکل پیمبر نے فرمایا بابا آپ فخر خلیل اللہ ہیں اور میں فخرِ زبیح اللہ

میں اس زندگی پر شہادت کو ترجیع دیتا ہوں (سبحان اللہ)

کربلا کی اس منظر کشی کا مقصد صرف یہ تھا کہ ہم واقعی سورۃ عصر کی روشنی میں گھاٹے میں ہیں۔ ہم نے دنیوی زندگی کو ہی اصل زندگی سمجھ لیا ہے اور موت کی حقیقت کو بھُلا بیٹھے ہیں۔ ہم زندگی کی دوڑ میں اس بات کو فراموش کر چکے ہیں کہ موت مسلسل ہمارے تعاقب میں ہے اور کسی بھی لمحے ہمیں آ دبوچے گی۔

جابر بن حیان (فادر آف کیمسٹری) نے

اپنے استاد امام جعفر صادق ع سے پوچھا

" اے استاد مُکرم، فرزند رسول ع یہ تو بتائیے کہ موت کیا ہے؟

استاد نے فرمایا: جابر سمجھ سکتا ہے؟

جابر نے کہا جی اگر اپ اہل سمجھیں تو سمجھائیں،

استاد نے فرمایا :

"جابر غور سے سُن اور سمجھ جب تو شکمِ مادر میں تھا تو تاریک پردوں میں رہتا تھا وہ بہت چھوٹا سا جہاں تھا تب جابر تو نے اِس جہاں کی وسعت اور روشنی دیکھی نہیں تھی؟

لیکن تو اُس تاریک جہاں میں بہت خوش تھا تب تو اُس جہاں سے کسی اور جگہ جانا نہیں چاہتا تھا کیونکہ تو نے اُس سے بڑا جہاں دیکھا نہیں تھا یہی سبب ہے کہ تو نے اِس جہاں میں آتے ہی رونا شروع کر دیا تھا۔

کیونکہ تو سمجھ رہا تھا کہ میں مر رہا ہوں لیکن یہاں والے خوش تھے کہ تو اُس جہاں میں پیدا ہو رہا ہے یہی ہوگا جب تو یہ جہاں چھوڑ کر اگلے جہاں جائے گا وہاں والے خوش ہوں گے کہ جابر پیدا ہو رہا ہے یہاں والے رو رہے ہوں گے کہ جابر مر رہا ہے۔

استاد نے مزید فرمایا جابر جسے دنیا پیدائش کہتی ہے وہ اصل میں موت ہے اور جسے دنیا موت کہتی ہے وہ اصل میں پیدائش ہے۔

جابر جتنا فرق شکم ِمادر اور اِس جہاں میں ہے اِتنا ہی فرق اِس جہاں اور اُس سے اگلے جہاں میں ہے۔

جابر جیسے تو اِس جہاں میں آ کر واپس پلٹنا نہیں چاہتا ایسے ہی تو اگلے جہاں کی وسعت کو دیکھ کے پچھلے جہاں میں پلٹنا نہیں چاہے گا۔

جابر جتنا فرق شکم ِمادر اور اِس جہاں میں ہے اِتنا ہی فرق اِس جہاں اور اُس سے اگلے جہاں میں ہے:-

مولا صادقِ آلِ محمد ص نے زندگی اور موت کی جو تفسیر بیان کی اس کے بعد ہمیں کسی ابہام میں نہیں رہنا چاھیے کہ ہم نے اس دنیا میں ہی ہمیشہ رہنا ہے لہذا اس دنیا کے لیے ہی مال و متاع اکٹھا کرنے والے واقعی گھاٹے میں ہیں۔ وہ اس دنیا کی ہوس میں دوسروں کے حقوق پامال کر رہے ہیں، غصب کر رہے ہیں اور اپنے غلط اقدامات کی تاویلیں اور توجیحات بھی دیتے ہیں۔ اپنے مذموم افعال کے حق میں ہی دلائل نہیں دیتے بلکہ اپنے من پسند سیاستدانوں کے جرائم کا بھی دفاع کرتے نہیں تھکتے۔ ہمارے ایک نون لیگی عزیز کہتے ہیں

اگر شُرفاء نے خزانہ لوٹا ھے تو کیا ہوا؟ کون سی قیامت ٹوٹ پڑی؟

سب ایسا ہی کرتے ہیں؟

اگر ہمارے لیڈر نے جھوٹ پر جھوٹ بولے اور پھر جھوٹ بولنے کا اعتراف بھی کر لیا تو کیا ہوا؟ سب جھوٹ بولتے ہیں۔ یہاں سقراط کون ہے؟

قومی خزانہ لوٹنے اور جھوٹ بولنے کے باوجود ہمارا لیڈر صادق اور امین ہے۔ مولوی خادم اگر ناقابلِ بیان گالیاں سرعام دے کر بھی مذہبی سکالر کہلا سکتا ھے۔ فضل الرحمان کشمیر کے نام پر کروڑوں کھا کر کشمیریوں کے حق میں ایک لفظ نہ بول کر بھی مریدوں کا اعلیٰ حضرت ہے۔ زرداری بھٹو خاندان کا نام ونشان مٹا کر بھی جیالوں کا لیڈر ھے تو ہمارے لیڈر نے کون سا پاکستان کو کچا چبا لیا ھے؟؟؟

نطشے نے کہا تھا

“اے میرے غلام دوست تجھ سے تو جنگلی جانور ہی اچھے ہیں“

اس نے شاید ایسی ہی صورتحال میں کہا ہو گا۔ لیکن اس بات کو سمجھنے کے لیے صرف عقل کی نہیں حساس دل کی بھی ضرورت ہے۔

میرے سامنے بہت سے اخبارات ہیں۔ ۔ ۔ ایک خبر پر نظریں تھم سی گئی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قحط سالی کی وجہ سے معصوم بچوں اور مویشیوں کی ان گنت ہلاکتیں۔ ۔ ۔ ۔ غذائی قلت کی وجہ سے موذی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ ۔ ۔ اور اور اور میری آنکھیں بھیگ گئی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

لیکن "ذمےداران" کی مجرمانہ خاموشی اپنی جگہ پر قائم ہے۔ ۔

راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ اور ہاں یہ خبر کسی بھی اخبار کے فرنٹ پیج پر نہیں۔ ۔ ۔ ۔ فالتو کونے کھدرے میں لگائی گئی ہے۔ ۔ ۔ کیونکہ یہ کوئی قابل ذکر یا قابل فکر خبر تھوڑی ہے کہ اس کو اہمیت دی جائے۔ ۔ ۔ نمایاں جگہوں پر جو اہم خبریں ہیں وہ ملاحظہ فرمائیے

* مریم اورنگ زیب نے انڈوں پر احتجاجی نعرے لکھ کر ٹوکری اٹھا کر احتساب عدالت کے باہر احتجاج کیا۔

* دیپیکاپڈو ایشیا کی 10 پرکشش اور جازب نظر خواتین میں سرفہرست۔

* شیریں رحمان کی پریس کانفرنس۔

* میرا کو 2 فلموں کی آفر۔

* سلمان خان شادی کب کرے گا؟ وغیرہ وغیرہ وغیرہ

میں سوچ رہی ہوں کیا ہم انسان ہیں؟

نطشے نے ٹھیک کہا تھا واقعی ہم سے تو جنگلی جانور ہی اچھے ہیں۔ ۔ ۔ ۔

چاروں اطراف تیرگی ہے بتول

ہاتھ میں اک دیا ھے اور میں ہوں

فاخرہ بتول

فاخرہ بتول نقوی ایک بہترین شاعرہ ہیں جن کا زمانہ معترف ہے۔ فاخرہ بتول نے مجازی اور مذہبی شاعری میں اپنا خصوصی مقام حاصل کیا ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ فاخرہ بتول کی 18 کتب زیور اشاعت سے آراستہ ہو چکی ہیں جو انکی انتھک محنت اور شاعری سے عشق کو واضح کرتا ہے۔ فاخرہ بتول کو شاعری اور ادب میں بہترین کارکردگی پر 6 انٹرنیشنل ایوارڈز مل چکے ہیں۔