1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حیدر جاوید سید/
  4. جادوگر "سیاں" اسحق ڈار کی واپسی

جادوگر "سیاں" اسحق ڈار کی واپسی

اسحٰق ڈار کو آپ جو مرضی کہہ لیجئے، میں ان کی مستقل مزاجی کا قائل ہوں۔ وہ وزیراعظم کے طیارے میں ملک سے "نکل" گئے تھے۔ لگ بھگ پانچ سال بعد وزیراعظم کے "طیارے" میں"واپس" آ گئے۔ درمیان میں پونے چار برس تبدیلی سرکار رہی اس کے ایک مشیر احتساب جنہیں"پیار" سے یار لوگ احتساب اکبر کہتے بلاتے تھے، روز نہیں تو ایک دن چھوڑ کر دعویٰ کیا کرتے تھے برطانوی حکومت سے مجرموں اور مفروروں کی حوالگی کا "معاملہ" طے پا گیا ہے بس چند دن کی بات ہے نواز شریف اور اسحٰق ڈار کو گھسیٹتے ہوئے لے آئیں گے۔

بعد کے دنوں میں شہزاد اکبر مرزا ایک عدالتی فیصلے کے سہارے پتلی گلی کے راستے ملک سے نکل لئے۔ اب وہ ملک سے باہر ہیں اور جن دو مفروروں کو انہوں نے گھسیٹ کر لندن سے پاکستان لانا تھا ان میں ایک وزیراعظم کے طیارے میں بیٹھ کر آ گیا ہے فقیر راحموں کہتے ہیں یہ سب راولپنڈی کا کرم ہے۔ ہو سکتا ہے کیونکہ راولپنڈی کے "کرموں" کے پھل کھاتے کھاتے اب تو بس ہو گئی ہے۔ شوق دا کوئی مل نہیں۔ چلیں دیکھتے ہیں محفوظ راستہ لے کر عقل کے چراغ روشن ہوئے یا پروتھے ٹکر والی اَکڑ ہے کہ "ہم سا ہو تو سامنے آئے"۔

ارے چھوڑیئے ہم بھی کن چکروں میں پڑ گئے، ڈار صاحب (اسحٰق ڈار) واپس آ گئے ہیں۔ (ن) لیگ کے دوست انہیں پچھلی اور رواں صدی کا سب سے دھانسو برانڈ ماہر معاشیات سمجھتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو لیکن میں اور فقیر راحموں پچھلے تیس برسوں سے جس محمد اسحٰق ڈار کو جانتے ہیں وہ سفید جھوٹ بھی اس ذہانت کے ساتھ بولتا ہے کہ جوتوں سمیت آنکھوں میں گھس کر چوکڑی مار کے بیٹھ جاتا ہے۔

یہ دو ہزار آٹھ کی بات ہے محترمہ بینظیر بھٹو کے سڑک پر مار دیئے جانے کے بعد ہونے والے الیکشن کے نتیجے میں پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں سنگل لارجسٹ پارٹی بن گئی۔ کچھ آزاد امیدواروں اور ق لیگیوں نے انتخابی عمل سے قبل پیپلز پارٹی کو یقین دہانی کروائی تھی ان یقین دہانیوں کی "بیخ کنی" کرنے والوں کا ذکر اب فضول ہے۔

پی پی پی نے (ن) لیگ، جے یو آئی ف، اے این پی، ایم کیو ایم اور چند دیگر کے تعاون سے مخلوط حکومت کا ڈول ڈالا۔ اسحٰق ڈار اس مخلوط حکومت کے وزیر خزانہ تھے۔ پرویز مشرف نے وفاقی کابینہ سے حلف لیا تھا۔ لیگی وزراء نے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھی ہوئی تھیں۔ کابینہ بن گئی، اسحٰق ڈار نے پہلی ہی پریس کانفرنس میں انکشاف کیا "ملک دیوالیہ ہو چکا ہے"۔ ملکی اور عالمی سطح پر بہت لے دے ہوئی۔

پیپلز پارٹی والے حیران تھے کہ اتحادی وزیر خزانہ نے ان سے عجیب ہاتھ کیا (ویسے وہ اب بھی حیران ہی ہیں کہ ڈار نے وہ کیوں کہا تھا) اس ہنگامہ خیز پریس کانفرنس کے چند دن بعد مخلوط حکومت کے وزیر خزانہ سے ملاقات کی "سعادت" حاصل ہوئی۔ ان سے پوچھا، حضور یہ ملک دیوالیہ ہو چکا ہے والی راگنی چھیڑنے کی ضرورت کیا تھی؟ انہوں نے پانچ سات منٹ نان سٹاپ گفتگو کی۔ فقیر راحموں نے میرے کان میں کہا "شاہ جی نیا سوال کرو ورنہ ڈار صاحب نے شام کر دینی ہے اور "فیر کھانا ٹھنڈا ہو جائے گا"۔

سچ یہی ہے کہ ڈار صاحب بڑے عظیم ماہر معاشیات ہیں۔ ان کا اندازہ ان کی ذاتی معاشی حالت کو دیکھ کر آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ حسد کے مارے کچھ لوگ شریف برادران کی معاشی حالت کو بھی ڈار صاحب کا "کرشمہ" قرار دیتے ہیں حالانکہ ایسا بالکل نہیں۔ ابدی سچائی یہ ہے کہ ڈار صاحب شریف برادران تک رسائی سے قبل فقیر راحموں کی طرح "فُقرے" تھے اتفاق فاونڈری کے پارس کو چھوا تو سونا بن گئے۔

خیر ہم اصل موضوع پر آتے ہیں۔ اسحٰق ڈار ہچکولے کھاتی معیشت کے نئے ناخدا ہوں گے اگر کہیں سے حکم امتناعی آڑے نہ آ گیا تو۔ ویسے امید نہیں کہ حکم امتناعی آڑے آئے گا۔ اس ہچکولے کھاتی معیشت کو ان سا جادوگر ہی سنھال سکتا ہے۔ پچھلے چند دن سے کچھ کالم نویس ان کی خوبیاں اور خامیاں بیان کر رہے ہیں ایک صاحب نے تو یہ انکشاف بھی کیا کہ ڈار صاحب ہمہ وقت باوضو رہتے ہیں اور درود شریف کی تلاوت بھی کرتے رہتے ہیں۔

چلیں کوئی تو فقیر راحموں جیسا ہوا۔ ہمارے فقیر راحموں بھی اکثر باوضو رہتے ہیں، درود شریف اور سورۃ کوثر کی تلاوت کرتے رہتے ہیں۔ معاف کیجئے گا یہ فقیر راحموں کا ذکر یونہی درمیان میں آ گیا۔ اسحٰق ڈار کہاں اور فقراؤ جان ادا فقیر راحموں کہاں؟ ڈار صاحب اب اگر وزیر خزانہ بنتے ہیں جیسا کہ کہا جا رہا ہے اور بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں۔ رکاوٹ کسی کونے کھدرے میں چھپی بییٹھی ہو تو کچھ کہہ نہیں سکتے۔

وجہ یہی ہے کہ اس ملک میں اتفاقات، حادثات اور انہونیاں یہ سب اتنا کچھ ہو چکا کہ اب حیرانی ہوتی ہے نہ پریشانی۔ سفید پوش آدمی کو حیرانی اور پریشانی دونوں سے محفوظ رہنا چاہیے۔ ان دونوں سے یاری زندگی کی خواری ہے۔ ڈار صاحب نے اگر وزارت خزانہ سنبھال لی تو اب ہے تو اتحادی حکومت ہی مگر اس میں (ن) لیگ کا پلڑا بھاری ہے اس لئے وہ "دیوالیہ دیوالیہ" جیسی شرلیاں بالکل نہیں چھوڑیں گے۔

ہم اور آپ ان کی جادوگری کے تماشے دیکھیں گے۔ 40 ارب ڈالر ساہوکاروں کو واپس کرنے ہیں لگ بھگ 30 ارب ڈالر یا اس سے کچھ اوپر کا معاشی نقصان سیلاب سے ہو چکا۔ ارے ہاں سیلاب سے یاد آیا، دنیا بھر میں سندھ اور بلوچستان کے سیلاب کو بیچ کر جو امداد حاصل کی جا رہی ہے وہ این ڈی ایم اے کے گوداموں میں آرام کر رہی ہے۔ ممکن ہے یہ امداد گرمی اور سیلابی علاقوں کا حبس برداشت نہ کر سکتی ہو اس لئے این ڈی ایم اے کے ماہرین ٹھنڈے میٹھے موسم کا انتظار کر رہے ہوں۔

ان کی نیت پر شک نہیں کیا جانا چاہیے این ڈی ایم اے والوں نے کورونا کے ایک مریض پر سخاوت کے ساتھ 26 لاکھ روپے خرچ کر کے کورونا کو جس طرح شکست دی اس کے بعد کورونا نے پہلے توبہ کی اور پھر سرحد "ٹاپ" کر بھاگ نکلا تھا۔ امید واثق ہے کہ این ڈی ایم اے سیلاب کی بھی اسی ولولہ تازہ سے مرمت کرے گا اور پھر سیلاب کبھی جرات نہیں کرے گا۔ بار دیگر معافی موضوع سے بھٹک جانے کی اصل میں ڈار صاحب کی واپسی اور معیشت کی بحالی کے روشن امکانات کی خوشی بھول بھلیوں میں پھنسا دیتی ہے۔

یقین کیجئے ہم "انجمن گستاخانِ" اسحٰق ڈار کے رکن کیا ہمدرد بھی بالکل نہیں بلکہ ان کی معاشی جادوگری کے "دیوانے" ہیں۔ دیوانگی ہی بھٹکا دیتی ہے ورنہ ہمیں بھی معلوم ہے کہ اب عالمی اداروں اور بڑے ملکوں کے ماہرین معاشیات کو "دندل" پڑنے والی ہے کیونکہ اب ان کا سامنا گولیاں ٹافیاں بیچنے والے مفتاح اسماعیل سے نہیں ایک جید ماہر معاشیات جناب اسحٰق ڈار سے پڑنے والا ہے۔

ایک بار پھر یقین کیجئے میں سو فیصد پرامید ہوں کہ جو شخص اپنی معیشت کو چار چاند لگا سکتا ہے وہ ا پنے مادر وطن کی غیروں کے سامنے سبکی نہیں ہونے دے گا۔ اسی لئے مجھے یہ بھی "یقین" ہے کہ ڈار صاحب دنیا کے ماہرین معاشیات کو وختے ڈال دیں گے اور وہ اپنے 40 ارب ڈالر کی وصولی بھول بھال کر خالی چیک لئے پھریں گے کہ ڈار سے ملاقات ہو اور انہیں چیک پیش کیا جائے۔

ایک بات کہوں اسحٰق ڈار کی قابلیت اور حب الوطنی پر اعتراضات کرنے والے دوسرے تمام لوگوں کو تو کچھ نہیں کہنا البتہ انصافی ارسطو اسد عمر سے فقط یہ عرض کرنا ہے اسحٰق ڈار کو سستی جگتیں مارنے سے قبل اگر وہ صرف اپنے گریبان میں جھانک کر یہ یاد کر لیں کہ انہیں وزارت خزانہ سے "رخصت" کیوں کیا گیا تھا تو بہت افاقہ ہو گا۔

پس نوشت، ایک دوست نے وجاہت مسعود کے ایک تاریخی مغالطے کی طرف متوجہ کیا تھا اس پر یقیناً بات ہو گی فی الوقت اس دوست سے درخواست ہے کہ وہ ڈار صاحب کے علم معاشیات میں سے کیڑے نا نکالا کریں کیونکہ یہ "آخری چراغ" ہے اور اگر یہ جل نہ پایا تو "فیر اندھیرا جے" کالا شیاہ اندھیرا۔