پچھلے کالم میں کم عمری کی شادیوں کے حوالے سے ہوئی قانون سازی پر مولانا فضل الرحمن کی جانب سے احتجاج کی دھمکی، ایمل ولی خان کی نامناسب تقریر پر پیش کی گئی معروضات پر خیبرپختونخوا کے علاقے لوئر دیر سے تعلق رکھنے والے ایک قاری عباداللہ صاحب نے قرآنی آیات اور مذہبی تشریحات کے ذریعے گوشمالی کرتے ہوئے فرمایا ہے "مولانا فضل الرحمن محض ایک سیاستدان نہیں بلکہ ایک دینی اور آئینی شعور رکھنے والے منجھے ہوئے رہنما ہیں جنہیں ملک کے ہر طبقے نے بطور سنجیدہ اور بااثر قومی شخصیت کے طور پر تسلیم کیا ہے ان کے طرز سیاست اور موقف سے اختلاف کا حق سب کو ہے مگر ان کا مذاق اڑانا یا "مولوی سوچ" کہہ کر استہزاء کرنا ایک سنجیدہ جمہوری اور صحافتی رویے کے منافی ہے"۔
عباداللہ مزید فرماتے ہیں "جب ایمل ولی خان جیسے قوم پرست رہنما بھی اس بل کی مخالفت کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں واقعی ایسے پہلو موجود ہیں جو مقامی مذہبی اور سماجی روایات سے ہم آہنگ نہیں ان کے موقف کو بھی "مولوی سوچ" کہہ کر طنز کرنا علمی کمزوری کی علامت ہے"۔
اسی کالم پر ہی میری فیس بک وال پر کمنٹ کرتے ہوئے ایک قاری نے کہا "مولوی کو مولانا لکھ کر آپ نے انہیں اپنا آقا تسلیم کرلیا"۔
اس قاری کی تشریح سے اتفاق ممکن نہیں اگر مولانا کا مطلب آقا مان لیا جائے تو یہاں اتنے عام آدمی نہیں جتنے آقا وافر تعداد میں کھلے پھر رہے ہیں۔
عباداللہ صاحب کا جواب دعویٰ ان کا موقف ہے البتہ ان سے درخواست ہے کہ مقامی سماجی روایات ہوتی ہیں مقامی مذہبی روایات نہیں اسلام بلاد عرب سے آیا یہاں کیسے قبول و مقبول ہوا۔ یہ ایک الگ موضوع ہے البتہ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ بلوغت کیا ہوتی ہے؟
زندگی کے معاملات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرلینا، خاندانی و سماجی تعلقوں اور رشتوں کے مراتب کا ادراک اور سفر حیات کے نئے مراحل کے لئے منصوبہ بندی کی صلاحیت یا پھر بلوغت کا واحد مطلب وہی لیا جائے جو مولوی بتاتا سمجھاتا ہے؟
مجھ طالب علم کے خیال میں بلوغت کے مطالب میں سے ایک مطلب وہ ضرور ہوسکتا ہے جو مولویوں اور ان کے پیروکاروں کے پیش نظر ہے لیکن یہ واحد مطلب حرف آخر ہرگز نہیں۔
کسی بھی نئے خاندان کی بنیاد بلوغت کی اس واحد شرط پر نہیں رکھی جاسکتی۔ نیا خاندان مطلب ایک نئے ادارے کا قیام ہے میاں بیوی اس ادارے کے مساوی سربراہ ہیں انہوں نے ادارے (خاندان) کی قدیم شاخوں (ہر دو طرف کے خاندانوں) سے تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کے ساتھ نئے قائم ہونے والے خاندان کے داخلی و خارجی کردار اور خاندان میں آگے چل کر ہونے والے اضافے (اولاد کی صورت میں) کی ذمہ داریوں کو شعوری طور پر نہ صرف سمجھنا ہے بلکہ ان سے عہدہ برآ بھی ہونا ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بلوغت کی مولویانہ شرط یا تشریح حرف آخرنہیں یہ بلوغت کی شرائط کا ایک ہی کُل ہرگز نہیں۔ محض اس شرط کو ہی شادی کے لئے حرف آخر مان لیاجائے تو اس سے جو مسائل پیدا ہوں گے وہ کیسے حل ہوں گے۔
اس حوالے سے ایک سوال آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا سوال یہ ہے " شادی کے معاملے میں لڑکی کی رضامندی کا معاملہ اس کا ذاتی اقرار ہے یا بوقت نکاح پیچھے کھڑی رشتہ دار خواتین کی جانب سے اس کے سر کو اثبات میں ہلادینا؟ ہر دو میں سے شرعی حیثیت کس کی ہوگی؟"
اسی طرح یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا ہم کسی قبائلی سماج میں رہ رہے ہیں کہ اس کی صدیوں پرانی اصلاحات و تشریحات من و عن تسلیم کرنا ہوں گی۔ کیا کسی مذہب کے پیش نظر انسانی سماج کے فکری ارتقا کے منافی قواعد و ضوابط مسلط کرکے جمود کو برقرار رکھنا ہوتا ہے؟
ایک طالب علم کی حیثیت سے میری رائے یہی ہے کہ بلوغت محض طبی نشانی نہیں بلکہ سماجی و ذاتی شعور بھی ہے ذاتی اور سماجی شعور کے بغیر فرد یا خاندان (نوتشکیل شدہ خاندان بھی) کیسے سفر حیات کے معاملے کرے گا؟
میں لگ بھگ 40 برسوں سے تواتر کے ساتھ یہ عرض کرتا آرہا ہوں کہ نئے جوڑے کا شادی سے قبل مکمل طبی معائنہ ازحد ضروری ہے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ دونوں میں سے کسی ایک میں کوئی ایسی بیماری تو نہیں جو اگلی نسل کو منتقل ہوسکے؟ اس رائے کے اظہار پر ہونے والی چاند ماری بھگتنے کے باوجود اب بھی اسے صائب رائے سمجھتا ہوں۔
عین ممکن ہے کہ مولانا اور ایمل ولی جس پشتون سماج کا شعوری حصہ ہیں اس میں بلوغت کی یہ واحد شرط اول و آخر ہو لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ اب وہ اپنے سماج کے ساتھ دوسرے سماجوں سے تشکیل پانے والے ایک بڑے سماج کا حصہ ہیں بڑے سماج میں ان کی طرح سب کو حق ہے کہ وہ ہر معاملے پر اپنی اپنی رائے دیں۔
مثال کے طور پر اگر قانون سازوں کو بلوغت کے معاملے پر اجتہاد کا حق نہیں تو پھر ان کے باقی ماندہ اجتہادی قوانین بھی غلط قرار پاجائیں گے اس طور جو افراتفری پیدا ہوگی اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟
عباداللہ صاحب کے بقول "مولانا فضل الرحمن کو ہر طبقے نے سنجیدہ اور بااثر قومی شخصیت کے طور پر تسلیم کیا ہے"۔ یہ کب ہوا؟ مولانا اپنے مسلک کی ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں یہ سربراہی انہیں وراثت میں ملی ہے۔ یہ وراثت خود ایک وراثت کے انکار سے عبارت ہے۔
ان کی مذہبی تشریح ان کے ذاتی مسلک کے مطابق ہوسکتی ہے اس تشریح کو اجتہاد کا نام دینا درست نہیں۔
ایمل ولی خان کو بھی کسی مذہبی معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ مختلف الخیال اکائیوں سے تشکیل پانے والے سماج کی ضرورتیں کیا ہیں سیاسی جماعتیں اگر ارتقا کی مخالف ہوں گی تو وہ سیاسی جماعت کے تصور پر پورا نہیں اتریں گی۔ ایمل ولی کسی قبائلی سماج میں سیاست نہیں کررہے وہ سینیٹ آف پاکستان کے رکن ہیں۔ اے این پی (نیپ) نیشنل عوامی پارٹی کا تیسرا شناختی پڑائو ہے نیپ پر پابندی لگی تو سردار شیر باز مزاری کی قیادت میں این ڈی بی بنی جو آگے چل کر عوامی نیشنل پارٹی بن گئی۔
اے این پی سیاسی جماعت ہے یا مذہبی مسلکی سیاسی جماعت ہے؟ یہ بذات خود سوال ہے۔ ان کے حوالے سے پچھلے کالم میں جو عرض کیا وہی اب بھی ہے۔
بار دیگر عرض ہے کہ بلوغت کی واحد طبی شرط حرف آخر ہرگز نہیں اس شرط کو حرف آخر کے طور پر پیش کرنے والے دستیاب مسلم تاریخ کے اپنے اپنے پسندیدہ اوراق سے جو حوالہ جات پیش کرتے ہیں ان حوالہ جات پر اسی تاریخ کے دوسرے اوراق میں ہوئی بحث سے آنکھیں کیوں چراتے ہیں؟
ایک انسانی سماج کے ارتقائی سفر کا اصل حُسن یہی ہوتا ہے کہ وہ قدیم و جدید روایات پر توازن کے ساتھ عمل کرتے ہوئے ایسی قانون سازی کرے جو سماج کے عصری شعور کے لئے قابل قبول ہو محض یہ کہہ دینا کہ بلوغت کی وہی واحد شرط حرف آخر ہے جس کی تفسیر و تعبیر مولوی صاحبان یا ان کے متاثرین کررہے ہیں درست نہیں۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں اولاد نہ ہونے پر مرد کو طبی معائنہ کے لئے کہہ دینا اس کی غیرت و مردانگی پر حملہ تصور ہو اور بے اولاد ہونے کی ذمہ داری و ذلت صرف عورت کے حصے میں ڈالی جاتی ہو اس معاشرے میں حقیقت پسندی کا مظاہرہ چاند ماری کو دعوت دیتا ہے۔
کیا محض چاند ماری سے گھبراکر اپنے حصے کی بات نہ کی جائے؟ ہماری دانست میں درست یہ ہوگاکہ عصری شعور کے ساتھ اپنی بات کی جائے۔
حرف آخر یہ ہے کہ بلوغت کی مولویانہ تشریح حتمی ہرگز نہیں کسی کُل کے ایک جُز کو کُل کی صورت میں مسلط کرنے سے مسائل پیدا ہوں گے۔
زندہ اور باشعورا نسانی سماج اپنی اگلی نسلوں کے لئے مسائل پیدا کرتا ہے نہ کانٹے بوتا ہے بلکہ اگلی نسلوں کے لئے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔