1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حماد حسن/
  4. غار حرا کے آس پاس

غار حرا کے آس پاس

یہ ۳۰ دسمبر کی ایک ٹھنڈی صبح تھی فجر کی نماز کے بعد میدانِ عرفات اور جبلِ رحمت دیکھ کر غارِ حرا کی طرف چل پڑے مجھے ایک طویل عرصے سے اس مقدس مقام کو دیکھنے کی حسرت بھی تھی اور تجسس بھی۔ ٹیکسی سے اُترے تو میں اپنی اہلیہ اور چھوٹے بیٹے غزن کے ہمراہ تقریبًا ایک فرلانگ مشکل چڑہائی چڑھتا ہوا اس مقام پر پہنچا جہاں سے غارِحرا کی جانب سیڑھیوں کا طویل اور مشکل سفر شروع ہوتا ہے عقیدت مندوں کا کافی رش تھا حتٰی کہ بعض بوڑھے مرد و خواتین بھی ھانپتے ہوئے چند سیڑھیاں چڑھتے اور کنارے پر سستانے بیٹھ جاتے تقریبا یہی حال دوسرے صحتمند لوگوں کا بھی تھا راستے میں سایہ نہ ہونے کے برابر ہے اور جاتے دسمبر میں بھی گرمی پڑ رہی تھی ایک اچھے صحت والے آدمی کو بھی تقریبًا ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتے ہی مکّے کے سنگلاخ پہاڑ اور جدید عمارتیں آپ کے سامنے ہوتیں ہیں تاہم منظر مکمل وضاحت کے ساتھ نہیں بلکہ قدرے دھندلا ہٹ کے ساتھ محسوس ہوتا ہے شاید موسم کا اثر ہو، چوٹی پر پہنچنے کے بعد ایک تنگ سا ڈھلوانی راستہ جانبِ حرم اُترتا ہے اس راستے پر اُتر کر چٹانوں کے درمیان سے گزر کر بائیں جانب مڑیں تو غارِحرا سامنے ہوتا ہے لیکن میں نے رش کی وجہ سے شارٹ کٹ اپنایا بچپن کی شرارتوں اور دیہاتی پن کا تجربہ کام آیا سو میں جنگلے کے دوسری جانب اُتر ا اور بالکل دیوار جیسے سیدھے خطرناک چٹانوں میں کوئی سوراخ یا اُبھرا ہوا پتھرڈھونڈ کر پکڑتا ہوا اُترنے لگا اُوپر اور نیچے کھڑے لوگ حیرت سے دیکھتے تھے بعض نے ڈانٹا اور بعض نے سمجھایا لیکن عقیدت کے معاملات میں زندگی اپنی معنی کھو دیتی ہے نیچے ایک سیاہ فام افریقی مجھے دیکھ کر مسکرایا اور اشارہ کیا کہ میرے ہاتھ پر پاوُں رکھ کر اُتر آو ایک پاکستانی نوجوان نے بھی مدد کی اور میں غار کے دھانے اُترادیکھا تو غزن غار میں نفل پڑھ کر باہر آچکا تھا اس نے غار تک پہنچنے کے لئے مجھ سے بھی زیادہ خطرناک راستہ اپنایا تھا غارِحرا اس شکل میں ہرگز نھیں جس طرح کے غاروں کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں اور غارِحرا کا تصوراتی پیکر بھی اسی طرح تراشتے ہیں بلکہ یہ چند عمودی چٹانیں ایک دوسرے پر گرتی اور ایک دوسرے کو سہارا دیتی نیچے ایک تکونی دائرہ بناتی ھیں میں نے بغور مشاہدہ کیا تو دائیں جانب ایک بڑی چٹان کے اُوپر دو بڑے پتھر جنوب کی سمت جھکے ہوئے ہیں جو اِسی طرف سے گرتے ہوئے ایک بڑے پتھر کو روکے ہوئے ہیں اِسی پتھر کے بغل میں ایک چھوٹا پتھر بھی ہے جبکہ عقب میں ایک بڑی چٹان ہے گویا بائیں جانب سے گرتے ہوئے ایک بڑی اور ایک چھوٹی چٹان کو دائیں جانب سے دو پتھروں نے روکا ہوا ہے اور اِسی سے غارِحرا کا منظر بنتا ہے غار کے اندر شمالاً جنوباً دو پتھر ہیں دائیں جانب والے پتھر پر تکیے جبکہ بائیں جانب والے پتھر پر ٹیک لگانے والی جگہ کا گمان ہوتا ہے گویا ایک سٹڈی چئیر، میں نے لمحہ بھر کو سوچا کہ میرے حضورٌ اس تکئے پر اپنا سرِ مبارک رکھتے توخُدا سے مخاطب ہوتے اور ٹیک لگاتے تو انسانوں کی فکر کرنے لگتے، غارِحرا کی لمبائی تقریبًا پانچ میٹر ہے تاہم صرف دو میٹر تک آگے جایا جا سکتا ہے کیونکہ سامنے والی چٹانوں سے نہیں گزرا جا سکتا البتہ دوسری جانب شرقًا غربًا ہَوا اور روشنی آتی جاتی ہے میں نے غار کے اندر دو رکعت نفل پڑھنے کے بعد سلام پھیری تو اِن سیاہ مائل پتھروں کو رَشک اور حسد سے دیکھتا رہا جن کی بانہوں میں میرے حضورٌ طویل تنہائی اور تفکّر کا زمانہ کاٹتے رہے اِنہی پتھروں نے جبریلِ امین کے پروں کو تعظیمًاسمٹتے ہوئے دیکھا اور انہی پتھروں نے کائنات کا حلیہ تبدیل کرتے ہوئے اِقراء کا نعرہ بھی سنا۔ میں ایک چٹان پر بیٹھا سوچتا رہا کہ اس بے آب و گیاہ بستی (مکہ)اور سنگلاخ پہاڑ میں آخر ایسا کیا تھا کہ کائنات کی مقدس ترین ہستی اورعظیم پیغام کے لئے انھی کا انتخاب ہوا میں نےآنکھیں بند کر لیں اور چشمِ تصور سے ابراہم علیہ اسلام کو ایک صحرا میں خان کعبہ کی دیوار اٹھاتے اور پھر اسی بے اماں صحرا میں اپنی بیوی اور شیر خوار بچے کو اکیلے چھوڑتے دیکھا میں نے دیکھا کہ یہ دیوار آسمان کی طرف بلند ہوتی جا رہی ہے جبکہ پیاسی زمین زمزم ابلنے لگی ہے۔
اوہ خدایا میری نا تواں عقل اور کمزور بصیرت میں اتنی طاقت کہاں کہ ان رازوں کا بھید پا لے۔
میں نے آنکھیں کھو لیں ارد گرد دیکھا اور اپنے آپ سے کہا
یہ سلسلہ کوئی اور ہے
تھوڑی دیر بعد غارِحرا سے نکل کر چٹانوں کو پھلانگتا ہوا میں پہاڑ کی چوٹی پر آیا تو گھر والے میرا انتظار کر رہے تھے ہم سب کی آنکھوں میں زمزم کے چشمے اتر آئے تھے سو خاموشی کے ساتھ سیڑھیاں اُترنے لگے۔ غارِ حرا کا رُعب ہماری اعصاب پر حاوی تھا اور ایک چپ سی لگی تھی آخری سیڑھی اُتر کر روڈ پر قدم رکھا تو غزن نے میری طرف دیکھ کر کہا بابا آ پ کو معلوم ہے غارِحرا تک جانے کے لئے کُل کتنی سیڑھیاں تھیں؟
میں نے اِنکار میں سر ہلایا تو اُس نے کہا 926 سیڑھیاں ! اور اس بچےّ نے فورًا کہا ہمارے نبی کریمٌ کے زمانے میں تو یہ سیڑھیاں بھی نہیں تھیں میں نے اِس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا
بیٹا سیڑھی تو دور کی بات ھے سہارا تک نہ تھاـ