1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حماد حسن/
  4. عجوبے

عجوبے

عہد ساز کامیڈین امان اللہ سے جب ایک ٹیلیوژن شو میں کہا گیا کہ امریکہ کہتا ہے کہ ہم پاکستان کو مزید امداد نہیں دینگے، تو امان اللہ نے برجستہ کہا کہ ان سے کہہ دو اگر امداد نہیں دوگے تو ہم گلیوں میں مونیکا لیوانسکی (بل کلنٹن کی گرل فرینڈ) کی باتیں کرینگے، یہ مزاح کے غلاف میں لپٹی وہ تلخ حقیقت ہے جو ہمارے مجموعی قومی رویئے سے عیاں ہے عملیت کی بجائے جذباتیت اور حقیقت کی بجائے مبالغہ۔

لیکن پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ رویہ کیسے اور کیوں کر بنا؟

پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی ہم ایک پرآشوب اور بے سمت سفر کا آغاز کرتے ہیں، پرآشوب اس حوالے سے کہ نوزائیدہ ملک اور لاکھوں مہاجرین کی آمد صرف ایک سال بعد قائداعظم کی وفات، لیاقت علی خان کا قتل اور غلام محمد کے ہاتھوں منتخب جمہوری اداروں پر پہلا وار۔

یہی وہ صورتحال تھی جس نے اس نئے ملک کی بنیادوں میں انتظامی بدحواسی، لیڈر شپ کافقدان اور جمہوری اداروں کی کمزوری کا بیج بویا، بے سمت سفر اس حوالے سے کہ جمہوریت ابھی سیاسی جلاد غلام محمد اور جسٹس منیر جیسے کرداروں سے نپٹ رہی تھی کہ ایوب خان اعلان کرتا ہے کہ یہ ملک جمہوریت کیے لئے نہیں بلکہ آمریت کے لئے بنا ہے جس کے بطن سے ایبڈو، بنیادی جمہوریت اور 1964ء کے صدارتی الیکشن جیسے عجوبے برآمد ہوتے ہیں اور پھر اس کے بعد تو چل سو چل والا معاملہ چل پڑتا ہے، جب آپ اس “معاملے “ کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں تو قدم قدم پر ایبڈو چوہدری خلیق الزمان، فاطمہ جناح کی شکست اسلامی نظام کا نفاذ، بھٹو کی پھانسی، غیر جماعتی الیکشن جونیجو لیگ، آئی جے آئی، معین قریشی، 12اکتوبر، اٹک قلعہ، سعودی عرب جلاوطنی، ق لیگ ڈیویلویشن پلان اور شیخ رشید جیسے عجوبے دیکھ کر آپ خود بخود سمجھ جاتے ہیں کہ ہمارے قومی رویئے کو عجوبہ بنانے میں کون سے حالات اور عوامل کار فرما تھے، لیکن ٹھریئے معاملے تک پہنچتے پہنچتے آپ کو ایوب کتاہائے ہائے، یحیٰ خان، ڈھاکہ فال سندھو دیش، ایم آر ڈی، شاہی قلعہ، افتخار چوہدری، 12 مئی اور الطاف حسین جیسے مقامات آہ و فغان بھی دیکھنے کو ملتے ہیں،

وہ جوکہا جاتا ہے کہ غلطی کبھی بانجھ نہیں ہوتی تو یہاں بھی اول الذکر نے موخر الذکر کو جنم دیا لیکن ہمیں سب سے پہلے اول الذکر یعنی آمریت کے دور کے اقدامات کا جائزہ لینا ہوگا۔

آج ایبڈو کا بدنام زمانہ قانون کس سیاستدان کو سیاسی عمل میں حصہ لینے سے روک سکتا ہے؟

چوہدری خلیق الزمان کی سیاسی وراثت کون سی ہے، فاطمہ جناح کی عزت میں کتنی کمی آئی ہے؟

بھٹو کی پھانسی کے بعد بھی پیپلزپارٹی تین بار اقتدار میں نہیں آئی؟

جنرل ضیاء کا اسلامی نظام پاکستان کے کس حصے میں نافذ ہے؟

جونیجو لیگ، آئی جے آئی، ق لیگ ڈیویلویشن پلان اور معین قریشی آج کل کہاں پائے جاتے ہیں، 12اکتوبر کا شکار دوبارہ ملک کا منتخب وزیراعظم نہیں بنا؟

آمریت کاپروردہ شیخ رشید ٹولہ اپنے جیسے ٹی وی چینلز پر سیاسی نوحہ خوانی اور عوام کے لئے مزاح کا ذریعہ نہیں بنے؟

لیکن جب ہم دوسرے حوالے یعنی ردعمل میں ابھرنے والے عوامل کو دیکھتے ہیں تو وہاں نتائج مثبت بھی ہیں اور دیرپا بھی۔

مثلاً ایوبی آمریت کے خلاف تحریک نے نوجوان طبقے کو سیاسی دھارے کا حصہ بنایا اور وڈیرہ شاہی کے مقابلے میں نوجوان طبقہ منظر پر نہیں اُبھرا؟ اسٹیبلشمنٹ کے جبر نے ڈھاکہ فال اور یحیٰ خان جیسے خوفناک حادثے تو جنم دئیے لیکن حقوق کی پامالی اور سیاسی جبر کو ہمیشہ کے لئے خطرے کا نشان بھی بنادیا؟ اسی طرح یہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں لہولہان پیپلزپارٹی ہی تھی جس نے میدان میں سندھودیش کے مقابلی میں وفاقیت کا نہ صرف علم بلند کیا بلکہ سندھو دیش کا کادم خم بھی نکال کر رکھ دیا اور فیڈریشن کو ناسازگار منطقوں سے کمک فراہم کی، ایم آر ڈی تحریک شاہی قلعے کی صعوبتوں، افتخار چوہدری کی “نہ” اور 12مئی نہ صرف قانون کی بالادستی اور جمہوری بقاء کے ضامن بنے بلکہ رائے عامہ کو مستقل طور پر ہموار اور بیدار کردیا، ساتھ ساتھ آمریت کے مستقبل پر ایک بڑا سوالیہ نشان بھی لگا گیا اور پھر آمریتوں کے پروردہ الطاف حسین کا کارنامہ اور اس کا انجام جب وہ نئی فضاء کا ادراک کرنے میں ناکام ہوگیا اور سیاسی طاقت اس کے ہاتھ سے پھسل گئی، یہی وہ ایک دوسرے سے جڑے لیکن متضاد سیاسی عوامل ہیں جو قومی سوچ اور روئیے میں جذباتیت کی فراوانی اور پختگی کے فقدان کا ذریعہ بن کر اسے یکسوئی اورعملیت پسندی سے دور لے جاتے ہیں، جب ایک قوم کو اس کی فطری روانی اور اعتماد کے فطری سفر سے بار بار محروم کیا جائے اور اس کے اردگرد خالی خولی نعروں اور بانجھ موسموں کی دیواریں کھڑی کی جائیں تو زمینی حقائق سے دوری اور جذباتی باتوں کے علاوہ اس کے پاس اور کیا رہ جاتا ہے۔