1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حماد حسن/
  4. مولوی محمد باقر سے میر شکیل الرحمٰن تک

مولوی محمد باقر سے میر شکیل الرحمٰن تک

پتہ نہیں اس بوڑھے اور بیمار آدمی کو کیا پڑی ہے کہ اسے تند ہواؤں کے مقابل چراغ جلانے کا جنون ہے حالانکہ وہ میر خلیل الرحمٰن کا بیٹا ہے جس نے اپنی پُرخلوص جدوجہد اور شبانہ روز محنت کے مہ وسال گزارنے کے بعد اسی ملک کی سب سے بڑی میڈیا ھاؤس کھڑی کر دی تھی اور جاتے جاتے اسے اپنے بیٹے کو سونپ دیا تھا۔

اب چاھئیے تو یہ تھا کہ ناز و نعم میں پلا میر شکیل الرحمٰن دار کی بجائے کسی دربار کا رُخ کرتا۔ اپنے اخبارات اور ٹیلی وژن چینل کے لئے تھوک کے بہاؤ بکتے کذب بیانی کے ماھرین اور بلیک میلنگ کے فاتحین کا انتخاب کرتا اور ان کے ھاتھ میں وہ بیانیہ پکڑا دیتا، جو اپنی بد بوداری اور غلاظت کے باوجود بھی کبھی قابل اعتراض نہیں ٹھرا۔

وہ کذب بیانی کے اس فوج ظفر موج کی پیٹھ تھپتپاتا اور وہ لوگ اپنی پٹاریوں سے حرص و ھوس کے کریہہ رنگوں سے مزئین وہ ناگ برآمد کرتے رہتے جو بے بنیاد الزامات اور دشنام و بہتان کی زھر افشانی میں اپنی مثال آپ ہیں۔

اس "خدمت" سے میر شکیل کا ادارہ دن دگنی اور رات چگنی ترقی کی راہ لیتا اشتھارات کی بارش ہوتی، درپیش مسائل سیکنڈوں میں حل ہوتے، بزنس کو وسعت ملتی اور اپنی شامیں اہل سطوت و دربار کے ساتھ گزارتے لیکن میر شکیل الرحمٰن نے ایک بزنس مین کی بجائے ایک حساس شاعر کی مانند حقیقت پسندی کی بجائے تصور پسندی کے راستے کا انتخاب کیا اور یہاں سے وہ نیم تاریک راہوں اور دار کی خشک ٹہنی کی جانب چل پڑا۔

اب روز روز وہ پولیس کے نرغے میں عدالتی راھداریوں میں خوار ہوتا اور شام کو "اپنے گھر" یعنی سلاخوں کے پیچھے چلا جاتا ہے۔جرم یہ ٹھرا ھے کہ آج سے چونتیس سال پہلے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا تھا۔

تجھ کو کتنے کا لہو چاھئیے اے ارض وطن

کہیں پڑھا تھاکہ جب اُردو کے پہلے صحافی اور مدیر مولوی محمد باقر (دھلی اردو اخبار) کو 1857 کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد دوسرے حریت پسندوں سمیت گرفتار کرلیا گیا اور چند دن بعد فوجی عدالت نے اسے موت کی سزا سنائی۔ سولہُ ستمبر اٹھارہ سو ستاون کو جب انہیں دھلی دروازے کے باھر توپ کے گولے سے اُڑانے کے لئے لایا جا رہا تھا تو ان کا ھونہار اور کم عمر بیٹا (مولانا محمد حسین آزاد) بھیس بدل کر قریب جا پہنچا۔ زنجیروں میں جکڑے مولوی محمد باقر اور ان کے بیٹے کی آنکھیں چار ہوئیں تو والد نے دور سے دونوں ہاتھ اُٹھا کر دعا کا اشارہ کیا۔

نہیں معلوم کہ یہ دعا مولوی محمد باقر کے لئے تھی یا اُردو صحافت کےلئے لیکن اس دعا کو بہرحال ایک شاندار قبولیت ملی کیونکہ برصغیر کی صحافتی تاریخ کے پہلے شھید مولوی محمد باقر آج بھی برصغیر کی آزاد صحافت اور جراتمند اظھار رائے کا ایک دمکتا ہوا استعارہ ہیں اور اگر وہ دعا صحافت کے شاندار مستقبل کے لئے مانگی گئی تھی تو بھی قبولیت سے محروم نہیں رہی کیونکہ ڈیڑھ سو سال بعد بھی اس صحافت نے باوجود کچھ کمزوریوں اور نادانیوں کے سچ بولنے اور ڈٹ جانے کی روایت کو ایسی آسانی کے ساتھ ترک نہیں کیا۔

کیونکہ طاقت کے در و بام سے ٹپکتے ہوئے جبر کے جس خونی منظر نامے میں کل مولوی محمد باقر ایک دلربا دلیری کے ساتھ ڈٹا نظر آیا تھا عین اسی سے ملتے جلتے حالات و واقعات میں میر شکیل نے بھی اس دلیر روایت کا علم گرنے نہیں دیا۔

یہی ہماری صحافت ہے اور یہی اس کا مزاج اور تاریخ۔

اور رہی صحافت کی آڑ میں وارداتی گروہوں کا شرمناک کردار اور مشکوک چال چلن تو اسے صحافت تسلیم کب کیا گیا ہے جو اس پر بات بھی کرنے لگ جائیں!