1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حماد حسن/
  4. تم کھرے آدمی کیوں بنے

تم کھرے آدمی کیوں بنے

آدھی رات کے آس پاس میں نے کالم کا آخری جملہ لکھا توجھٹ سے انور خان یاد آگیا، وہ اس جملے کا لطف بہت لے گا اور پھر ایک جذباتی تقریر بھی جھاڑ دے گا، اس لئے میں نے اپنا سیل فون اُٹھایا اور اس کے نام پر کلک کیا (انور خان سے بات کرنے کا مناسب وقت یہی ہوتا ہے کہ وہ رات بھر جاگنے اور دوستوں سے بات کرنےوالا آدمی ہے) دیر تک اس کے سیل فون پر رنگ جاتی رہی کافی دیر بعد ایک لڑکی نے فون اٹینڈ کیا اور بولی کہ میں انور خان کی بیٹی بول رہی ہوں۔

بابا بیمار ہیں بات نہیں کر سکتے۔

کیوں بیٹی کیا ہوا انور کو؟

میں نے سراسیمگی میں پوچھا۔ ۔ ۔

انکل ان کو فالج کا اٹیک ہوگیا ہے اور وہ بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں، اس کے ساتھ ہی بچی نے سلام کیا اور فون بند ہوگیا۔

اور پھر رات بھر مجھ جیسا مزدور آدمی بھی کروڑیں بدلتا رہا اور نیند تلاش کرتا رہا۔

دوسرے دن عزیز خٹک نے شہر کے ایک قدیم محلے کی تنگ سی گلی کے سرے پر گاڑی کھڑی کردی اور ہم دونوں ایک نیم تاریک سے گھر کے ایک چھوٹے سے کمرے میں داخل ہوئے۔

آئیے سر !

میں آپ ہی کا انتظار کر رہا تھا۔ انور نے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا ارےیار۔ ۔ تم تو ٹھیک ٹھاک ہو ویسے ہی ڈرایا ہمیں۔

میں نے تسلی کو مزاح میں لپیٹنے کی کوشش کی۔ زبان تو شکر ہے ٹھیک ہے یہ ایک ہاتھ اور پاؤں کا مسئلہ ہے۔

یہ کہتے ہوئے بھی اس کے چہرے پر اس کی فطری مسکراہٹ قائم رہی۔

چھوڑو انور ہاتھ اور پاؤں والوں سے تو سارا شہر بھرا ہوا ہے زبان کا آدمی نہیں مل رہا۔

میرے اس ذومعنی جملے کے ساتھ ہی اس کا بلند و بانگ قہقہہ کمرے میں گونجا اور گونجتا رہا۔

انور خان کو پورا شہر جانتا ہے وہ اپنے مزاج کا ایک الگ آدمی ہے۔ ایک جینوئن ترقی پسند سیاسی ورکر، ایک کمال کا ادب دوست اس شہر میں شاید ہی کوئی کالم نگار، ادیب، شاعر یا سیاسی ورکر ہو جو انور خان کا بہترین دوست یا بد ترین دشمن نہ ہو کیونکہ وہ درمیانی راستہ نہیں چھوڑتا۔

وہ اپنی زندگی انتہاؤں پر گزارنے کا عادی ہے۔ اس کی بنیادی وابستگی پیپلزپارٹی سے رہی لیکن وہ ایک جیالے کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک انقلابی کی حیثیت سے پارٹی میں موجود رہا۔

اس لئے وہ تمام بائیں بازو کی جماعتوں سے وابستہ کارکنوں میں یکساں مقبول ہے لیکن کہیں بھی اسنے منہ چھپا کے یا سر جھکا کے بات نہیں کی۔ ایک بار بائیں بازو کی جماعت کی خاتون سینیٹر اس سے بحث کرنے لگی تو انور خان نے دلیل کے طور پر صوفی جمعہ خان کی کتاب فریب ناتمام کا حوالہ دیا تو خاتون سینیٹر نے ناگواری سے کہا میں اسٹیبلیشمنٹ کے اشارے پر لکھی ہوئی کتابیں نہیں پڑھتی تو انور خان نے بھرے ہال میں بلند آواز میں کہا کہ بی بی جب آپ سٹبلیشمنٹ کی کہنے پر سب کچھ کرنے لگی ہیں تو ان کے کہنے پر لکھی ہوئی کتاب پڑھنے میں کیا حرج ہے۔

انور خان کا یہی مزاج ادبی اور صحافتی دُنیا میں بھی رہا۔

محسن احسان سے ظہور اعوان تک سب اس کی ناز برداریاں اُٹھاتے رہے۔

خاطرغزنوی مرحوم نے ایک بار اس کے کان کھینچتے ہوئے کہا خبیث لفظ تو تم نے کبھی ایک بھی نہیں لکھا، لیکن لوگ ہم سے زیادہ تم کو جانتے ہیں۔

یہ محبت اسے اُردو، پشتو اور ہندکو سمیت تمام لکھاریوں سے یکساں حاصل رہی۔

کسی نے اباسین یوسفزئی سے پوچھا، کہ یہ انور خان کون ہے تو اس نے کہا اس صوبے (خیبرپختونخواہ) میں تمام زبانوں کو جو پُل آپس ملاتا ہے، اس پُل کا نام انور خان ہے۔

انور خان کے چھوٹے سے کمرے میں ایک پرانی تصویر لگی ہے۔ جو اس کے گھر منعقد کی گئی کسی اجلاس کے موقع پر کھینچی گئی ہے۔ اس تصویر میں محسن احسان، خاطر غزنوی، ظہور اعوان، ڈاکٹر نذیر تبسم اور، مشتاق شباب سمیت شہر بھر کی تمام دانائی ایک ساتھ کھڑی ہے۔

(کوئی کمال تو ہوگا اس میں جب ایسے لوگ اس کے گھر آتے رہتے ہیں) وہ جہاں محبت کے معاملات میں انتہاؤں کو چھونے والا آدمی ہے۔ تو دوسری طرف اس سے “پنگا “ لینا بھی ایک عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ کیونکہ وہ بہت دور تک اور دیر تک پیچھا کرتا ہے، اس نے بارہا ایسا کیا۔ اور ہمیشہ اپنے سے طاقتور لوگوں کے خلاف کیا اور اب یہی سر پھرا اورحددرجہ مخلص دوست ترقی پسند سیاسی کارکن اور ادب وصحافت کی آزادی کے لئے ہمیشہ لڑنے والا انور خان خاموشی کے ساتھ اپنی شدید علالت کے ساتھ لڑ رہا ہے۔ ایک قدیم محلے کے ایک نیم تاریک سے گھر میں لیکن میں کسی حکومتی ادارے سے اس کی مدد کے لئے درخواست کیوں کروں۔ کیوں کے میں جانتا ہوں اور پوری طرح جانتا ہوں کہ اس طرح کی حکومتیں اس طرح کے کام نہیں کرتیں، ان کی ترجیحات تو کچھ اورہوتے ہیں اور انور خان جیسے لوگ ان کے کس کام کے، میں تو کہتا ہوں کہ سارا قصور ہی انور خان کا ہے۔ وہ ایک سچا اور کھرا آدمی بنا ہی کیوں؟

اور وہ بھی ایک ایسے معاشرے میں جہاں معزز اور معتبر بننے کا معیار کچھ بھی ھو لیکن دیانت اور صلاحیت ہرگز نہ ھو!