1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حماد حسن/
  4. عمران خان نے فرمایا تھا

عمران خان نے فرمایا تھا

ایک بھرے جلسے میں جب ہواؤں کے گھوڑوں پر سوار اس کے جذباتی کارکن اس کے سامنے تھے تو سٹیج پر آکر عمران خان نے حسب معمول بلوچستان کے ایک غریب بچے کی بھوک اورپیاس کی کہانی سنائی پھر ورلڈ کپ اور شوکت خانم سے ہوتا ہوا اپنے ہر مخالف کو چور ڈاکو اورکرپٹ (لیکن صرف سیاستدان فوجی ڈکٹیٹر اور موصوف کے ساتھی نہیں) کے القابات اور خطابات دینے کے بعد فرمایا۔ ۔ ۔

میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنی قوم سے جھوٹ نہیں بولوں گا اور دھوکہ یا جھوٹا وعدہ نہیں کروں گا۔ اور پھر وہ دن اورآج کا دن یہ بد نصیب قوم اس دن کا منتظر ہے کہ اس وعدے کا پاس کب ہوگا کیونکہ عمران خان نے فرمایا تھا کہ جیسے ہی میں اقتدار سنبھال لوں گا تو باہر کے ملکوں میں پڑا چوری کا پیسہ (جو کھبی تین ہزار ارب بن جاتا ہے کبھی تیس ہزار ارب کھبی ایک لاکھ ارب بھرحال جتنا بھی ہے) اسے فوری طور پر واپس لا کر سارا قرضہ اُتار دونگا اور باقی دولت قوم پر لگا دونگا اور ان کی حالت بہتر کرونگا۔

اب پیسہ تو خیر کیا واپس آتا اور قوم کی حالت کیا سنبھلتی لیکن بلوچستان کے جس بھوکے بچے کی کہانی سے وہ اپنے کارکنوں اور جلسوں کو گرماتا رہتا اس بھوکے بچے کو دیکھنے کے لئے اب دور آفتادہ بلوچستان نہیں جانا پڑتا بلکہ اس جیسے بچے اب گلی گلی دستیاب ہیں۔

عمران خان نے مزید فرمایا تھا کہ میں خودکشی کر لونگا لیکن قرض نہیں لونگا۔ سامنے کے مجمع میں سوال و سوچ کی طاقتِ پرواز مفقود تھی ورنہ پوچھا جاتا کہ حضور قرض لینا کونسا گناہ کبیرہ ہے۔ دنیا کے تمام ممالک اپنے پراجیکٹس اور منصوبوں کی تکمیل کے لئے ایسا ہی کرتے ہیں۔ امریکہ، چین، روس اور سعودی عرب جیسے ممالک ہزاروں ارب ڈالرز قرض لے کر کامیابی کے ساتھ اپنے اپنے منصوبے چلا رہے ہیں اس لئے آپ (عمران خان) یہ بتائیں کہ عالمی مالیاتی اداروں سے معاملات کیسے طے ہونگے اور آئندہ قومی منصوبوں کی فزیبیلٹی کیا ہوگی؟

اگر کوئی سوال ہوتا بھی تو وہ تالیوں، سیٹیوں اور بھنگڑوں کی شور میں دب جاتا پھر بھی ہم جیسے نافرمان اور بد تمیز کوئی سوال اُٹھاتے بھی تو بہتان طرازی، طنز اور گالیوں کا سیلابِ بلا خیز اسے بہا کر لے جاتا اور اب صورتحال یہ ہے کہ ہر اس دروازے پر دستک دی جا رہی ہے جہاں سے معمولی سی مدد ملنے کی موھوم سی اُمید بھی باقی ہو اور تو اور سعودی عرب نے قرض پر تین ارب ڈالرز کا تیل دینے پر رضامندگی ظاھر کی تو وزیراعظم صاحب نے قوم کو خصوصی طور پر “خوشخبری “ سنائی (براہ کرم خوشخبری کو ماضی میں کی گئی تقاریر کے حوالے سے نہ دیکھا جائے)

اب سوال بنتا ہے کہ قرض پر تیل لینے کا یہ سلسلہ تو گزشتہ پچاس سال سے دونوں ممالک کے درمیان جاری وساری ہے یا یہ سوال کہ جمال خاشقجی کے قتل اور سعودی عرب کی سیاسی تنہائی کا فائدہ اٹھا کر سفارتی سطح پر بہتر انداز میں معاملات دانشمندی اور بہترین منصوبہ بندی سے طے کئے جاتے تو کہیں ذیادہ بڑا پیکج ملتا۔

عمران خان نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میں کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑونگا۔ اب اگر ہم اس جملے میں تھوڑی سی ترمیم کرکے کرپٹ کی جگہ مخالف کا لفظ لگا لیں تو پھر خان صاحب نے واقعی سچ کہا تھا کیونکہ شریف خاندان کی نیب عدالتوں میں پیشیاں، جیل یاترا وغیرہ جاری و ساری ہیں لیکن اگر لفظ کرپٹ ہی خان صاحب نے کہا تھا تو پھر اس لولی پاپ سے بہلنے والوں کی تعداد اس ملک میں تیزی کے ساتھ دن بدن کم ہوتی جارہی ہے کیونکہ ھیلی کاپٹر کیس سے پشاور بی آر ٹی اور فارن فنڈنگ کیس سے جھانگیر ترین، علیم خان، بابر اعوان زبیدہ جلال فھمیدہ مرزا اور پرویز خٹک تک ہر وہ طبقہ و فرد محضوظ و مامون ہے جس نے “غیر ممنوعہ” سیاست میں حصہ بقدر جثہ ڈالا ہے۔

عمران خان نے فرمایا تھا کہ میں پولیس کو غیر سیاسی اور عوام کا خادم بناؤنگا لیکن کیا واقعی پولیس کو بنایا بھی ایساہی، صرف پاکپٹن کا واقعہ ہی مثال کے لئے کافی ہے کیونکہ پولیس کی یہ جرات کہ خاور مانیکا کی گاڑی کو چیکنگ کے لئے روک لے تبھی تو رات گئے پولیس افسر کی وزیراعلی ھاؤس طلبی اور پیشی ہوئی جھاں جمیل احسن گجر نامی شخص نے پولیس افسرسے باز پرس کی ( یاد رھے کہ جمیل گجر اور خاور مانیکا کے قریبی فیمیلی تعلقات ہیں)۔

اس کے علاوہ ضمنی انتخابات کے دوران۔ حد درجہ ایماندارآئی جی پنجاب کی ٹرانسفر اور اپنےگراتے گھروں کا تماشہ کرنے کی بجائے عوام کا احتجاج اور ان پر برستے پولیس کی لا ٹھیاں ثابت کر رہی ہیں کہ پولیس واقعی غیر سیاسی بھی بن گئی ہے اور عوام کی خادم بھی؟

عمران خان نے فرمایا تھا کہ میں سو دن کے اندر اندر تبدیلی لے آؤنگا اور واقعی تبدیلی آگئی لیکن ایک اور قرینے سے بس اس حوالے سے ایک چھوٹا سا واقعہ ہی سن لیں،

میرے ایک قریبی دوست کل شام کو گپ شپ کے لئے آئے تو خلاف معمول اپنی گاڑی کی بجائے ٹیکسی لی تھی میں نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ اب گاڑی صرف گیراج میں کھڑی کرنے کے لئے ہے، میں نے پوچھا کہ کیا ٹیکسی مفت میں آتی ہے؟

تو اس نے کہا یہی تو مسلہ ہے پہلے یہاں تک آنے کے پچاس روپے لیتے تھے لیکن آج سو روپے لئے میں نے ٹیکسی والے سے کہا کہ یہ تو ذیادتی ہے تو ٹیکسی والے نے سی این جی سے لے کر دال ماش اور بجلی سے لے کر چینی تک ایک ایک چیز کی نئی قیمتیں گنوائیں اور یہ بھی کہا کہ ان اشیا کی قیمتیں پرانے پاکستان کی سطح پر آئیں تو کرایہ پچاس سے بھی کم کر لوں گالیکن ٹیکسی والے سے بحث کا ایک فائدہ بھی ہوا۔

فائدہ؟

میں نے حیرت سے پوچھا تو دوست نے جواب دیا کہ ٹیکسی والے نے میرے علم میں ایسے ایسے گالیوں کا اضافہ کیا جو ایک زمانے سے معدوم اور متروک ہوچکے ہیں۔ تا ھم بات یہ ھے کہ یہ گالیاں کس کو اور کیوں پڑ رھی ہیں احمد ندیم قاسمی صاحب کا مصرع بھی کہاں یاد آیا

جیسے آسیبِ حقیقت خلد کے خوابوں کے بعد