1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حارث مسعود/
  4. بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

پچھلے چند ماہ میں ہمارے سُسرال میں پے درپے شادیوں کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ پچھلے اتوار کو ذرا تھما۔ اہلیہ کی طرف سے سخت تاکید تھی کہ اس عرصہ میں قلم و کتاب سے علیحدگی اختیار رکھی جائے۔ اور ہمارے تمام احباب جانتے ہیں کہ ہم اہلیہ اور طبیب کے اشاروں پر ہی چلتے ہیں۔ کچھ احباب نے فیس بک پر شکوہ بھی کیا لیکن ہم اس دفعہ ثابت قدم رہے کیونکہ اہلیہ موصوف والا قصہ ابھی بھولی نہ تھیں۔ خیر خُدا خُدا کرکے شادیوں کا موسم موقُوف ہوا۔ تو سوچا کیوں نہ اُن لمحات کو قلمبند کیا جائے۔

شادی کے ماحول کو فلمی بنانے کے لئے شادی ہال والوں نے دُلہا دُلہن کے اہل خانہ کی جیب کو مدِّنظر رکھتے ہوئے کافی ہوشربا انتظامات کئے تھے۔ کہیں اودے اودے نیلے نیلے چیتھڑے لگا کر سجاوٹ کی گئی تھی۔ کہیں پیلے گیندے کے پُھول لٹکائے تھے تو کہیں نیلے پھول۔ رنگ برنگے قمقموں سے پورا ماحول خاصا رومان پرور لگ رہا تھا۔ پُورے پنڈال میں جابجا گول میزیں لگائی گئی تھی جن پر خُوشنما جام نُما گلاس رکھے تھے اور ساتھ میں منرل واٹر کی بھری ہوئی بوتلیں تھیں۔ ساتھ ہی ایک گلاس میں کاغذی پُھول ہماری سادگی کا مذاق اُڑاتے نظر آرہے تھے۔ کئی بار سوچا کہ معدنی پانی کی بوتل کا ڈھکن کھول کر جام بھر لیں لیکن احساسِ غُربت آڑے آجاتا کہ لوگ کیا کہیں گے کہ گھر میں ٹونٹی منہ لگا کر پانی پینے والا اب معدنی پانی کے نخرے کر رہا ہے۔ ابھی اسی کشمکش میں تھے کہ ہمارے خُسر نے یکدم بوتل کا ڈھکن کھول کر جام لبریز کرکے ہمارے روبرو پیش کردیا اور ہم پیاسے رہنے سے بچ گئے۔ یہ ہوتے ہے داماد ہونے کے چند فوائد میں سے ایک۔

ابھی ہم سمیت بہت سے حضرات اپنی نشستوں پر براجمان تھے اور پیٹ پوجا کے خیالات کے سمندر میں غوطہ زن تھے کہ اچانک ہاہاکار مچ گئی۔ ہمیں لگا کسی اہم شخصیت کا نزول ہونے والا ہے جو اتنا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ مائیک پر اعلان ہو رہا تھا، جگہ چھوڑ دیں جگہ چھوڑ دیں۔ دلہن کے بہن بھائی بہنوئی سب مستعدی سے راستہ بنانے لگے۔ پھر اچانک چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ تیز ہوائیں چلنے لگیں اور روِش پر گُل پاشی ہونے لگی۔ ابھی اسی اُفتاد سے سنبھلے ہی نہ تھے کہ روِش سے مُلحقہ گملے آگ اُگلنے لگے۔ پنڈال کی جانب سے تیز روشنی کی لہر آئی اور داخلی دروازے پر مرکُوز ہو گئی۔ ہم نے نگاہ کا محّور اسی طرف کر لیا۔ چند لمحوں کے بعد دلہن اپنے والدین، بہن بھائیوں کے جُھرمٹ میں قالینِ احمر پر فاخرانہ چال چلتی ہوئی پنڈال کی جانب رواں ہوئی۔ مجمع کی بیقراری بھی قابلِ دید تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی ایوارڈ فنکشن ہے او ر قالینِ احمر پر فواد خان یا ماہرہ خان رونق افروز ہوئے ہیں۔ لوگ اُمڈ اُمڈ کہ آ رہے تھے اور دلہن والے مجمع کو پنجاب پولیس کی طرح کنٹرول کر رہے تھے بس لاٹھی چارج کی دیر تھی۔ پُورا ہال اندھیرے میں ڈُوبا تھا اور صرف دُلہن اور اسکے اہلِخانہ ہی تیز روشنی کی زد میں تھے۔ چند گھڑیاں تو اسی حیرت انگیز نظارے کے دیدار میں نکل گئیں۔ خدا خدا کر کہ دلہن جا کر مسندِ اعلی پر رونق افروز ہو ہی گئی۔ تب کہیں جا کر ہال کی روشنیاں بحال ہوئیں۔

سُنا تھا موسیقی روح کی غذا ہے لیکن شادی ہال کا تان سین یہ ثابت کر رہا تھا کہ موسیقی سماعت کی سزا ہے۔ اتنی بلند آواز میں سُر سرگم کی جنگ چھڑی تھی کہ شادی ختم ہونے کے بعد ہم کو ثقلِ سماعت کا عارضہ کا شُبہ ہونے لگا تھا۔ ساتھ والے حضرت سے الطاف بھائی والے انداز میں بات کرنی پڑ رہی تھی۔ حد تو یہ ہے کہ واپسی پر بیگم سے اِسی لہجے میں مُخاطب ہوئےتو وہ برا مان گئیں۔ اس ہوشربا موسیقی کی وجہ سے ہم کو آدھے سر کے درد کو برداشت کرنا پڑا۔ بیگم سے کچھ کہنے کی ہمت نہ پڑی کیونکہ اُن کے میکے کی شادی تھی۔

دنیا میں کُچھ ایجادات بلکل بے فیض ہیں جن میں سے ایک موبائل کیمرہ ہے۔ موبائل کیمرے کو ہاتھ میں پکڑ کر ہر بندہ اپنے آپ کو جیک کارڈف سمجھنے لگتا ہے۔ ہر بندہ گاہے بگاہے اپنی اپنے عیال کی یا پھر سٹیج پر بیٹھے آج کے فواد ماہرہ کی تصویر لینے کے فراق میں مبتلا تھا۔ ہمارے سُسرال میں ایسی بہت ہستیاں ہیں جن کا دائیں ہاتھ کا انگُوٹھا شادی کے بعد دُکھ رہا تھا۔ ہماری اہلیہ کے خالو نے تو قسم کھائی تھی کہ کوئی تصویر اُن کے بغیر ہونے نہ پائے گی۔ ایک اور حضرت تصویر کے شوق میں دھکم پیل سے بھی باز نہیں آ رہے تھے۔

بیروں کی صفوں میں ہلچل اس بات کی غُماز تھی کہ طعام کی گھڑی نزدیک ہے، ہم بھی اپنی نشتوں پر براجمان ہو گئے۔ پھر وہ ساعت آہی گئی جس کا مدّت سے انتظار تھا۔ اور لوگ کھانے پر ٹوٹ پڑے۔ جتنی بُردباری، رواداری اور انکساری مہمانانِ گرامی نے تصویروں کے درمیان دکھائی تھی اس کا نصف بھی وقتِ طعام میں دکھا دیتے تو کیا ہوتا۔ ہماری اہلیہ کی ہمشیرہ سلاد اور رائتہ کا پیالہ ہی اُٹھا کر لے آئیں بھئی کون بار بار اُٹھ کر جانے کا کشت کرے۔ ہلاکو خان بھی اپنے کھوپڑیوں کے مینار بھول جا تا اگر ہمارے مینارِ بوٹیاں دیکھ لیتا۔ دس بجے کی پابندی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے سب احباب جلدی جلدی کھانے کو بقول ہمارے دوست تنزیل اشفاق زندگی کا آخری کھانا سمجھ کر تناول فرما رہے تھے۔ میٹھے کی باری آئی تو صرف قلفے کے درشن ہی نصیب ہوتے ایسی آنی جانی لگی تھی کہ لگتا تھا کہ تھالِ قلفہ کبھی بھرا ہی نہ تھا۔

خیر سلسلہء طعام خوش اسلوبی سے مُکمل ہوا تو دس بجنے میں چند گھڑیاں ہی باقی رہ گئی تھیں۔ ہال انتظامیہ کو قمقمے بند کرنے کا خیال آ گیا۔ اور پھر ہڑبونگ مچ گئی۔ جلدی جلدی گُل ہوتی بتیوں کی روشنی میں رُخصتی کے اعمال مکمل کئے گئے۔ بیچاری دلہن کو تو رونے کا موقع بھی نہ دیا گیا۔

لیکن آفرین ہے ہمارے سُسرال والو ں پر اندھیرے میں بھی بیٹھے رہے۔ چونکہ ڈی جے خاموش ہو چُکا تھا تو گُفت وشنید کا موقع ہی ابھی میّسر آیا تھا۔ بیگم کو لگاتار یاد دہانیوں کے بعد گھر واپسی کا خیال آیا اور چلو شادی ختم ہوئی۔

ہم سے پوچھو پچھلے کتنے مہینوں سے اہتمام کی کتھا سُن رہے تھے یہ والا کپڑا لینا ہے وہ والی جوتی لینی ہے۔ اس درزی کے پاس جانا ہے، اُس پارلر جانا ہے اور یہ کیا یہ فنکشن تو فقط دو گھنٹے میں تمام ہو گیا۔

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

جو چیرا تو ایک قطرہ خون کا نہ نکلا

حارث مسعود

حارث مسعود کا تعلق لاہور سے ہے اور بنیادی طور پر آئی ٹی پروفیشنل ہیں۔ ایک معروف آئی ٹی فرم میں پراجیکٹ مینیجر کے عہدے پر فائز ہیں۔ اردو سے مُحبت رکھتے ہیں اور مزاحیہ پیرائے میں اپنے خیالات کا اظہار پسند کرتے ہیں۔ سیاست پر گُفتگو پسند تو کرتے ہیں لیکن بحث و مُباحثہ سے اجتناب بھی کرتے ہیں۔