1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حارث مسعود/
  4. ایک عجب درویش تھا

ایک عجب درویش تھا

سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں

ہر خاندان میں ایسی شخصیت ہوتی ہے جو کہ خاندان کی جان ہوتی ہے، کئی خاندانوں کی پہچان ہی وہ شخصیات ہوتی ہیں۔ جیسے پوری برادری میں ہم اپنے نام سے زیادہ اپنے تایا یا نانی کی نسبت سے زیادہ مشہور ہیں۔ کئی جگہ تعارف کے لئے بڑے قاضی صاحب کا بھتیجا یا جمیلہ آپا کا نواسا ہونا ہی کافی ہوتا ہے۔ ایسی ہی ایک ہردلعزیز شخصیت ہمارے ماموں جان " آفاق عالم " بھی تھے۔ یقین جانئے آج بھی اُن کے نام کے ساتھ مرحوم لکھتے ہوئے دل مسوس جاتا ہے۔ ہمارے ماموں تبلیغی جماعت سے وابستہ تھے تو ہر سال اجتماع کے موقع پر کراچی سے لاہور آتے تھے۔ غالباً اکتوبر یا نومبر کا مہینہ ہوتا تھا اور متوقع آمد سے کئی دِن قبل ہی اُن کا انتظار شروع ہوجاتا تھا۔ مُجھے نہیں یاد کہ کبھی بھی وہ کسی پلان کے ساتھ آئے ہوں۔

جب وہ کراچی سے باہر کا رختِ سفر باندھتے تو پشاور تک حاضری دے کر آتے۔ وہ ہم بچوّں کے ساتھ بچّے بن جاتے تھے۔ اور جب ہمارے بّچے ہوئے تو اُن کو بھی وہی پیار دیا جو ہمیں دیا۔ لوگوں کا دِل وسیع ہوتا ہے اور آفاق ماموں کا دِل تو سمندر تھا۔ سارے جہاں کے مسائل کے حل کا بیڑا انہوں نے اُٹھایا ہوا تھا جس کو پورا کرنے میں اپنا جتنا مرضی نُقصان ہو اُن کو چنداں پرواہ نہ تھی۔ خاندان کو چھوڑیں کہیں دور پرے بھی کوئی خوشی یا غم کا موقع ہو آفاق ماموں کا کیسے بھی ہو شرکت کرنا لازمی امر تھا۔ اگر کسی نے قناعت اور ملّمع سے پاک زندگی دیکھنی ہے تو آفاق ماموں کی زندگی اُس کی مثال ہے۔ جیب میں چاہے چوّنی نہ ہو لیکن چہرے پر مخصوص مُسکراہٹ اور زبان پر کوئی شکوہ نہ دیکھا۔

راقم کے اوپر ماموں کے احسانات ایسے ہیں کہ میں کبھی بھی بدلہ نہ اُتار پاؤں گا۔ مُجھے یاد ہے جب کراچی میں نوکری ڈُھونڈ رہا تھا تو ماموں مُجھے ہر انٹرویو میں لیکر گئے۔ حتی ٰکہ نوکری کے پہلے دن آفس پک اینڈ ڈراپ بھی کیا۔ الغرض اُن کی کس بات کو یاد کروں بچپن سے جوانی تک ہماری کئی خوبصورت یادیں آفاق ماموں کی شخصیت سے مُنسلک ہیں۔

ان سب اچھی باتوں کے علاوہ ایک عادت جس سے اُن کے سب چاہنے والے نالاں تھے وہ تھی اپنی صحت سے لاپرواہی۔ ذیابطیس اور بُلند فِشارِ خون کا عارضہ سخت پرہیز کا مُتقاضی ہوتا ہے۔ جب کہ ہمارے عزیز ماموں پرہیز سے پرہیز کے فلسفے کے قائل تھے۔ جب بھی ان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی جاتی تو روایتی انداز میں کہتے کہ جو رات قبرمیں آنی ہے وہ آنی ہے۔ اور اسی طرح تین سال قبل اُن کو فالج کا اٹیک ہوا جو کہ جان لیوا ثابت ہوا۔ یوں ایک ہر دلعزیز شخصیت کم عمری میں ہم سب کو چھوڑ کر قبر کی چادر اوڑھ کر ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ اب اُن کی حسین یادیں ہمارے درمیان ہیں۔ اللہ اُن کے مغفرت فرمائے۔

حارث مسعود

حارث مسعود کا تعلق لاہور سے ہے اور بنیادی طور پر آئی ٹی پروفیشنل ہیں۔ ایک معروف آئی ٹی فرم میں پراجیکٹ مینیجر کے عہدے پر فائز ہیں۔ اردو سے مُحبت رکھتے ہیں اور مزاحیہ پیرائے میں اپنے خیالات کا اظہار پسند کرتے ہیں۔ سیاست پر گُفتگو پسند تو کرتے ہیں لیکن بحث و مُباحثہ سے اجتناب بھی کرتے ہیں۔