1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حارث مسعود/
  4. نوکر کی تے نخرہ کی

نوکر کی تے نخرہ کی

قارئین کرام کُچھ روز قبل حلقہء یاراں میں نشست ہوئی تو ایک موضوع زیرِ بحث آیا کہ کونسا نشہ زیادہ پُر اثر ہے کسی دوست نے چرس کسی نے افیم کسی نے بھنگ کہا۔ کوئی شراب کو نمبرون مانتا تھا تو کوئی ہیروئن کو۔ کسی کو عشق میں نشہ نظر آیا تو کسی کو طاقت میں۔ جب باری مابدولت کی آئی تو عرض کیا کہ ہوگا نشہ جن کا نام آپ سب نے لیا لیکن اصل نشہ"نو سے چھے کی نوکری کا ہے"۔ قارئین کرام اِس مُنفرد نشے کے عادی ہوئے ہوئے سترہ سال سے اُوپر بیت گئے ہیں لیکن مجال ہے کہ کبھی یہ نشہ ہرن ہوا ہو۔ باقی جو بھی نشے ہیں اُن کا کوئی وقت مقرر نہیں لیکن اس نشے کا وقت ہے ہر مہینے کی شروع کی تاریخ۔ اس نشے کا راشن مہینے کےشروع میں ختم ہوجاتا ہے لیکن اگلی خوراک کا انتظار ہی اس کو دوآشتہ رکھتا ہے۔ اور اسی چکر میں زندگی کے ماہ و سال نکل جاتے ہیں۔

ہمارے سب سے پہلے باس کا قولِ زریں ہے کہ نوکری چاہے پندرہ ہزار کی ہو یا پندرہ لاکھ کی ہوتی نوکری ہے۔ اُن کے نوکری کے بارے میں کُچھ لغو قسم کے بھی فرمودات ہیں جن کو ہم یہاں لکھ نہیں سکتے لیکن اتنا اعتبار کریں کہ وہ فرمودات بلکل صحیح ہیں۔

جب ہماری نوکری کا پہلا دِن تھا تو ایچ آر کی دِلکش نازنیں نے کہا کہ حارث آپ کو سال میں 12 دفعہ بیمار ہونے کی اجازت ہے، 12 دفعہ آپ ایسے ہی بتا کر چُھٹی کر سکتے ہیں، 12 سالانہ چُھٹیاں اُس کے علاوہ ہیں۔ اگر باپ بنتے ہیں تو 3 چھٹیاں بھی ملیں گی۔ اندر کے ریاضی دان نے اُسی وقت حساب لگایا کہ ہفتہ وار تعطلیات، تہوار اور سرکاری تعطلیات اور کمپنی کی نازنیں ایچ آر کی بتائی ہوئی تعطلیات کو جمع کیا جائے تو ہم 12 مہینے کی تنخواہ لیکر تقریباً دو ماہ چُھٹیوں پر گُزاریں گے لیکن جنابِ من پرائیویٹ نوکری میں چُھٹی لینا جوئے شیر لانے کے مُترادف ہے۔ جب بھی اپنے ٹیم لیڈر کے پاس چُھٹی مانگنے گئے تو اُن کے چہرے کے تغّیر دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے ایک چُھٹی نہیں گویا اُن سے اُن کا گُردہ مانگ لیا ہو۔ مزے کی بات ہے کہ کم و بیش سترہ سال گُزرنے کے بعد ابھی بھی باس کوئی بھی ہو اُن کا ردِّعمل وہی ہوتا ہے جو سترہ سال پہلے ہوتا تھا۔ اُن کا بیانیہ یہ ہوتا تھا/ہے کہ تُم چُھٹی پر جاؤ گے تو تُمہارا کام کون کرے گا۔ اور سالانہ ریویو کے موقع پر کہا جاتاہے کہ تُم کرتے ہی کیا تھے پُورا سال۔ الغرض اب چُھٹی پر جا کر ایک الگ سی شرمندگی ہی ہوتی ہے۔ ہمارے کافی عزیز اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ چونکہ ہم کو ہفتہ وار دو تعطلیات ملتی ہیں تو اس کو وہ رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اُن کو خام خیالی ہوتی ہے کہ ہم لوگ جب دِل چاہے جا کر اپنے باس کے پاس جا کر بول دیتے ہیں کہ فلاں دن ہم نہیں آئیں گے اپنا انتظام کر لو۔ حالانکہ چُھٹی مانگنے میں جو محنت کرنی پڑتی ہے وہ آپ کو اوپر کی سطور سے سمجھ آہی گیا ہوگا۔

اس کارپوریٹ سمندر میں تیرتے ہوئے لمبا عرصہ بیت گیا ہے۔ جب نوکری شروع کی تھی تو سمجھیں ہم ایک معصوم سی ننھی سی مچھلی کے مانند تھے لیکن اب ایک تنومند قسم کے مگرمچھ میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ پہلے جِن باتوں کو دِل پر لے کر گھنٹوں افسُردہ رہتے تھے اب اُن کو ہنسی میں اُڑا دیتے ہیں۔ ایک بات کارپوریٹ مزدور کو جتنی جلدی سمجھ میں آ جائے اُتنا مفید ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ عزت بے وفا ہے اور بے عزتی وفادارہے۔ آپ کی بڑی کامیابی اُتنا شور و غوغا نہیں کرتی جتنا آپکی معمولی غلطی۔ کام سے زیادہ کام کی فکر اور فکر سے زیادہ فکر کاذکر مفید ہوتا ہے۔

کارپوریٹ شیر اپنے گھر میں شریک حیا ت کا جنم دن، شادی اور بچّوں کی سالگرہ بھلے یاد رکھیں نہ رکھیں لیکن یہ کبھی نہیں بُھولیں گے کہ آپ نے کب اُن کی کسی بات کی مُخالفت کی تھی، کب آپ نے اکھّٹے تین چُھٹیاں لی تھیں۔ اور ستم ظریفی دیکھیے اِس طاقتور یاداشت کا مظاہرہ بھی کسی ایسی میٹنگ میں ہوتا ہے جہاں بات اُوپر تک جاتی ہے۔ آپ نے جنوری میں کوئی غلطی کی ہو تو اُس کا خمیازہ آپ پورا سال بُھگتے رہتے ہو، چاہے آپ اگلا پورا سال بغیر غلطی کے نکال دو۔ یہ شیر آپ کو اُس ساس کی طرح لگتے ہیں جو بہو کو یہ طعنہ دیتی ہے کہ آٹا گوندھتے ہوئے ہلتی کیوں ہو۔

کارپوریٹ دنیا چلتی ہی "ای میل" پر ہے۔ لوگ بات بے بات ای میل نکال دیتے ہیں۔ اور پھر گھنٹوں اُس میل کا چرچا بھی کرتے ہیں۔ چائے کی پتی سے لیکر انکریمنٹ کی اطلاع، سب ای میل کی مُحتاج ہیں۔ ہر چھوٹی بڑی بات کا اعلامیہ ای میل پر نکلتا ہے۔ کبھی ای میل آپ کو عظیم الشان بے عزتی سے بچا لیتی ہے اور کبھی ایسا پھنسا لیتی ہے کہ الامان الحفیظ۔

کارپوریٹ دنیا میں بھلے آپ کو یہ بارہا باور کرایا جاتا ہے کہ آپ سے زیادہ نکّما اور سُست انسان پوری کمپنی میں نہیں لیکن دو مواقع ایسے ہوتے ہیں جن میں ایچ آر یہ یقین دلاتا ہے کہ آپ سے زیادہ کوئی قابل اور محنتی انسان کمپنی کیا پوری دنیا میں کوئی نہیں۔ اور وہ دو مواقع ہوتے ہیں جب آپ چُھٹی مانگیں یا مُستعفی ہو جائیں۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ ایک اور کارپوریٹ مزدوراسی تنخواہ پر ڈھونڈنا کوئی آسان کام نہیں اور آپ کی چُٹھی میں آپ کا کام کیا آپ کا باس کرے گا۔

اِن سب مُشکلات کے باوجود کارپوریٹ دنیا ابھی بھی لوگوں کے لئے وسیلہءروزگار ہے۔ اور نوجوانوں کی اکثریت وہیں جانا چاہتی ہے۔ جو میرے جیسے پُرانے چاول ہیں وہ بھی اِس کو چھوڑنے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں اِس کو نشہ کہتا ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ سب کے زندگی کا پہیہ کارپوریٹ کے پہیے کے ساتھ چلتا ہے۔ ہم رسک لینے سے ڈرتے ہیں اور ڈر کے دائرے سے نکلنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہم سب لوگ پہلی تاریخ کو اپنے اکاؤنٹ میں تنخواہ آنے کا انتظار کرتے ہیں اور آخری تاریخوں میں پہلی تاریخ کا انتظار کرتے ہیں۔ یہی کارپوریٹ دنیا کا مایا جال ہے جس میں آپ کی صلاحیتوں کو گروی رکھا جاتا ہے۔ یہی طبقہ ہے جو کمانے سے پہلے ٹیکس دیتا ہے اور پھر سال کے اختتام پر اگر ٹیکس دینے کے بعد بھی گوشوارہ نہ بھرے تو معطوب ہوتا ہے۔ یہی وہ طبقہ ہے جو تنخواہ آنے سے پہلے ٹیکس دیتا ہے، تنخواہ بینک سے نکلوانے پر ٹیکس دیتا ہے۔ پھر سوئی سے لے کر موٹر کار تک ہر چیز کی خریداری پر ٹیکس دیتا ہے۔ البتہ اُس کو یہ سب بیچنے والے ٹیکس دیں نہ دیں اُس سے کسی کو سروکار نہیں۔ اِس طبقے کی غلط فہمی ہوتی ہے کہ وہ بچت کرکے امیر ہو گا۔ اس مقصد کے لئے کمیٹیاں بھی ڈالتا ہے لیکن چنداں فرق نہیں پڑتا۔ اور آخر میں سالوں کی بچت اپنے علاج پر لگا کر راہی عدم ہو جاتا ہے۔ اسی طبقہ کے بارے میں کارل مارکس نے کہا تھا کہ انقلاب کی راہ میں سب سے بڑی مُخالفت متوسط طبقہ کرتا ہے جسکے قدم کیچڑ میں اور نگاہ ستاروں پر ہوتی ہے۔

آخر میں ایک پُرانا قول ہی دہراؤں گا جو اپنے بڑوں سے سنتا آیا ہوں کہ بھائی نوکر کی تے نخرہ کی۔

حارث مسعود

حارث مسعود کا تعلق لاہور سے ہے اور بنیادی طور پر آئی ٹی پروفیشنل ہیں۔ ایک معروف آئی ٹی فرم میں پراجیکٹ مینیجر کے عہدے پر فائز ہیں۔ اردو سے مُحبت رکھتے ہیں اور مزاحیہ پیرائے میں اپنے خیالات کا اظہار پسند کرتے ہیں۔ سیاست پر گُفتگو پسند تو کرتے ہیں لیکن بحث و مُباحثہ سے اجتناب بھی کرتے ہیں۔