1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حارث مسعود/
  4. ڈپریشن

ڈپریشن

ایک تحقیق کے مُطابق وطن عزیز میں تقریباً بیس لاکھ نفوس ڈپریشن کے مرض کا شکار ہیں جو کہ کُل آبادی کا تقریباً دس فیصد بنتا ہے۔ اس بیماری کے بہت سارے عوامل ہیں لیکن لوگ عموماً اس کو بیماری نہیں سمجھتے بلکہ مریض کا مذاق بنانے سے بھی گُریز نہیں کرتے۔ معالج کے پاس اس لئے نہیں جاتے کہ لوگ کہیں گے کہ پاگل ہوگیا ہے جو پاگلوں کے ڈاکٹر کے پاس جا رہا ہے۔ راقم بھی اس مرض کا شکار رہا ہے۔ اس تحریر میں آپ کو میں اس مرض میں مُبتلا ہونے کی وجوہات اور اس پر قابو پانے کا طریقہ عرض کروں گا۔

مُجھے اس بیماری کا ادراک پانچ سال قبل ہونا شروع ہوا اور بیماری کی جڑ میرا دفتری ماحول تھا۔ یہاں میں ایک بات بتاتا چلوں کہ ہمارے مُلک کا کارپوریٹ سیکٹر ذہنی بیماری کو فروغ دینے میں کسی سے کم نہیں ہے۔ دفتر میں سینئر کی جھاڑ اور وہ بھی آپ کی ٹیم کے سامنے آپ کی خود اعتمادی کو تباہ و برباد کردیتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر ملازم کا حق ہے کہ وہ کُچھ دن آفس کے ماحول سے دور رہ کر اپنی دماغ کو آرام دے۔ ہم لوگ صبح سے رات تک، ہفتے کے پانچ دن کام کرتے ہیں۔ رات کو گھر سونے ہی آتے ہیں اور پھر صبح کام میں جُت جاتے ہیں۔ ہفتہ وار تعطیلات بھی گھر کے کام کی نذر ہو جاتی ہیں اور پیر کو پھر سے وہی گورکھ دھندا۔ اسی طرح زندگی گُزر جاتی ہے۔

عمومی طور پر زیادہ سینئر لوگ اپنی چُھٹی پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔ لیکن جب بات اُن کے نیچے کام کرنے والوں پر آئے تو اُن کو غش پڑ جاتے ہیں۔ کیوں کہ اُن کی غیر موجودگی میں آپ اُن کے حصّے کا کام کرسکتے ہو لیکن آپ کی غیر موجودگی میں وہ نہیں۔ خیر کام اور اپنے مینیجر کے دباؤ کی وجہ سے سر درد اور چڑچڑاہٹ کے مسائل بڑھنے لگے۔ ہمیشہ کی طرح میں اس خوف سے نظر انداز کرتا رہا کہ اگر نوکری نہ رہی تو کیا ہوگا۔ باس کا ناروا سلوک بھی برداشت کرتا رہا اور اس طرح دو سال نکل گئے۔ ذہنی دباؤ کا آتش فشاں بڑھتا رہا جو کہ ایک دن نروس بریک ڈاؤن کی صورت میں پھٹ پڑا۔

یہاں پر اربابِ اختیار کو سمجھ لینا چاہئے تھا، لیکن کارپوریٹ مجبوری بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اُن کو اپنی جان چُھڑانے کا حل یہ ملا کہ برسوں سے میں جس پراجیکٹ پر تھا اس سے چشمِ زدن میں مُجھے الگ کردیا گیا۔ آسان الفاط میں مُجھے کُھڈے لائین کردیا گیا۔ جب چند دن بعد دفتر واپسی ہوئی تو یہ خبر میرے پر بم بن کر گری۔ یقین جانئے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے آج بھی دل مسوس جاتا ہے۔ مُجھ سے جونیئر جو پہلے سر سر کہتے تھے اب زیرِ لب مُسکرا کر کنی کترا جاتے تھے۔ تب اندازہ ہوا کہ ذلّت سے زیادہ احساسِ ذلّت زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اب چونکہ کام نہ ہونے کے برابر تھا، تو منفی سوچ میں اضافہ ہونا تو طے تھا۔

ڈاکٹر کا مشورہ تھا کہ نوکری چھوڑ دو تو گُزر اوقات کیسے ہوگی اس لئے برداشت تو کرنا ہی تھا۔ اس وقت گھر والوں سے بھی تعلقات بھی کشیدہ ہو چلے تھے۔ کسی سے بات کرنے کو دل نہیں کرتا تھا۔ انٹرویو میں جاتا تو وہ بھی ناکام رہتا کیوں کہ مُجھے ناکارہ ہونے کا اتنا احساس دلایا گیا کہ میں اپنے آپ کو صحیح طرح پیش ہی نہ کرپایا۔ جب مجھے لگا کہ حارث اب پانی سر سے گزر گیا ہے اور اپنے بچّوں کو کسی نقصان سے بچانے کے لئے کُچھ کرنا پڑے گا۔ یقین مانئے ڈپریشن کو کوئی دوا نہیں ٹھیک کرسکتی صرف اس بات کا ادراک کہ آپ کو ڈپریشن ہے اور اِس بات کا فیصلہ کہ آپ نے خود اِس بیماری سے چُھٹکارا حاصل کرنا ہے۔ تو جب فیصلہ کیا تو دو حل نظر آئے ایک خود سوچ وچار کرکے نکالا دوسرا ایک مُحترم ہستی کی رہنمائی سے نکلا۔ اس مسلے کے دو حل تھے ایک دنیاوی ایک روحانی۔

میری اہلیہ کی خالہ شازیہ نے اس سلسلے میں رہنمائی کی۔ انہوں نے بڑے شاندار طریقے سے مُجھے پنج وقتہ نماز کا عادی بنایا۔ اور الحمدللہ وہ دن اور آج کا دن ہے نماز کی پابندی قائم و دائم ہے۔ یقین جانئے جب سے نماز کا عادی ہوا ہوں کئی مسائل حل ہوئے جیسے اُن کا وجود ہی نہ ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ کافی مسائل کے حل ذمّہ اللہ کی ذات نے خود لے لیا ہو۔

دوسرا جب دماغ کی بتّی جلی تو اپنا مُحاسبہ کیا تو پتا چلا کہ ہم ایک ہی جگہ برسوں نوکری کرکے اپنے آپ کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کر پا رہے تھے۔ اب چونکہ افسر بکارِ خاص تھے اس لئے کام نہ ہونے کے برابر تھا۔ تو نئی ٹیکنالوجی سیکھنے کا بیڑا اُٹھا لیا۔ چند مہینوں بعد جب مُسلسل تین انٹرویو میں کامیابی ملی تو پتا چلا کہ خرابی کہاں تھی۔ پھر ہمارے پاس تین آپشن تھے، اُن میں سے بہترین چُنا اور اپنی پُرانی کمپنی کے ساتھ برسوں کی رفاقت کا خاتمہ کیا۔ اگر مزید وقت وہاں گُزارتا تو بعید نہیں اور کونسی بیماریوں کا شکار ہو جاتا۔

جب انتقالِ روزگار کے مراحل طے ہوئے تو کُچھ فیصلے کئے جن پر آج تک سختی سے کاربند ہوں کیوں کہ ڈپریشن میں جانے کی وجوہات میں سے بہت ساری وجوہات کا باعث میرے روّیہ اور کام کا طریقہ تھا۔

کبھی بھی کسی کو چاہے وہ آپ کا سینئر ہو یا جونئیر کو اپنے آپ پر چلّانے نہیں دینا۔

اپنے کام پر توّجہ رکھنی ہے اور کسی کو اُنگلی اُٹھانے کا موقع نہیں دینا۔

کسی کا غلطی کا ذمّہ خود پر نہیں لینا۔

مروّت میں نہیں مارے جانا۔

اس ساری تحریر کا مقصد ڈپریشن جیسی موذی بیماری (جی ہاں موذی بیماری کیونکہ پچھلے سال میں اپنی چھوٹی بہن کو اس مرض کی وجہ سے کھو چُکا ہوں) سے نکلنے کا طریقہ بتا سکوں جو کہ میں نے آزمایا بغیر کسی دوا کے۔ ڈپریشن کی کوئی مخصوص علامات نہیں ہیں۔ کئی لوگ گُم سُم ہو جاتے ہیں تو کئی بہت زیادہ فعال۔ اس کا موجب بھی ایک نہیں ہے کوئی بھی صورتحال (خوشی سمیت) ڈپریشن کا سبب بن سکتی ہے۔ اگر آپ کو یا آپ کے گھر والوں، عزیزوں یا دوستوں میں سے کسی کو ڈپریشن ہے تو خدارا اس کو ہلکا نہ لیں اور فوری علاج کی طرف جائیں کیونکہ یہ بیماری اُم الامراض ہے۔ یہ ذیابیطس، بُلند فشارِ خون اور فالج (جس نے میری بہن کی جان لی) جیسی بیسیوں بیماریوں کی جڑ ہے۔

حارث مسعود

حارث مسعود کا تعلق لاہور سے ہے اور بنیادی طور پر آئی ٹی پروفیشنل ہیں۔ ایک معروف آئی ٹی فرم میں پراجیکٹ مینیجر کے عہدے پر فائز ہیں۔ اردو سے مُحبت رکھتے ہیں اور مزاحیہ پیرائے میں اپنے خیالات کا اظہار پسند کرتے ہیں۔ سیاست پر گُفتگو پسند تو کرتے ہیں لیکن بحث و مُباحثہ سے اجتناب بھی کرتے ہیں۔