1. ہوم/
  2. مزاحیات/
  3. حارث مسعود/
  4. آج بازار میں پابجولاں چلو

آج بازار میں پابجولاں چلو

عنوان دیکھ کر یقیناً آپ سب سمجھ گئے ہونگے کہ حارث ضرور آج فیض صاحب کی غزل کا ذکر چھیڑے گا لیکن ایسا کُچھ نہیں ہے۔ تمہید کو چھوڑیں سیدھا مُدعے پر آتے ہیں۔ چند برس قبل ہمارے سُسرا ل میں ایک شادی آ گئی۔ دُلہا دُلہن کو شادی کا انتظار ہو نہ ہو ہماری اہلیہ اور اُن کی چار ہمشیراؤں کو بے صبری سے انتظار تھا۔ ابھی شادی خانہ آبادی میں تین ماہ کا وقت تھا لیکن ہفتہ وار سُسرال حاضری کا موضوعِ سُخن صرف اس شادی کی تیاری ہی تھا یعنی کونسے اور کس طرح کے ملبوسات، موسم کے ساتھ مناسبت اور اس بات کا خاص خیال کہ پچھلی کسی فنکشن کا کپڑا دوبارہ نظر نہ آئے۔

جب راقم سے رائے دریافت کی گئی تو ہم گویا ہوئے کہ اگر چکن مینو کی جگہ مٹن ہو تو مزہ آ جائے۔ بیگم کی خشمگیں نگاہ نے مزید ایسے خیالات کو آنے سے روک دیا۔ خیر اسی مذاکراتی دور کا اعلامیہ یہ جاری ہوا کہ راقم کو کنبہ سسرال کے ہمرا ہ اپنی ہفتہ وار تعطلیات میں سے ایک کو وقف کرنا پڑے گا۔ ہامی بھرنے کے علاوہ چارہ ہی کوئی نہ تھا۔ یہ با ت غور طلب ہے کہ راقم کا شُمار انسانوں کی اُس قسم سے ہے جس کو شاپنگ جیسے فتنے سے اختلاجِ قلب ہوتا ہے۔ خیر وہ دن آگیا جب ٹریفک کے اژدہام کو عبور کرکے ہم اچھرہ پہنچے۔ گاڑی پارکنگ میں لگا کر اپنا دل بھی گاڑی کے حوالے کر آئے۔

اب بازار میں پا بجولاں چلنے کا وقت آ گیا۔ بیگم نے فیض کے نرم الفاظ کو ڈی سی کی زبان میں ادا کیا اور کہا، حارث "آج بازار میں پا بجولاں چلو" تو چلنا ہی پڑا۔ ایک سائڈ کی دُکان سے جو تحقیق شروع ہوئی تو آخری دُکان تک نہ ختم ہوئی۔ ہم پراجیکٹ مینیجر اپنے کمال پرستی کے باعث ایسے ہی بدنام ہیں۔ سرِبا زار چار خواتین کی قیمت اور میعار کی گفتگو دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ میرے پراجیکٹ ان میں سے کسی ایک کو بھی مل جائیں تو اپنا ڈبا گول سمجھو۔

ہمارے آنکھوں کی اذّیت ہماری اہلیہ کی نظر سے چُھپی نہ رہی اور انہوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں پیغام دیا، حارث "چشم نم جانِ شوریدہ کافی نہیں" تو اب واپسی کا سفر شروع کیا اب نئے سرے سے بھاؤ تاؤ او ر ہم ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم۔

ارے یہ کیا مغرب کا وقت ہوگیا ہمیں یاد ہے جب بازار میں پا بجولاں چلنا شروع کیا تھا تو ظہر کی اذان ہو رہی تھی۔

خیر عشاء کے بعد شاپنگ کا پہلا مرحلہ ختم ہوا اور اب ہم قلی نمبر 1 کی طرح اپنی سواری تک پہنچے ابھی سانس بحال ہوا تھا کہ پتہ چلا کہ ابھی تو لبرٹی بھی جانا ہے پاپوش کی خریداری کے لیے۔ رحم طلب نگاہ سے اہلیہ کی طرف دیکھا تو یہ پیغام ملا۔

دست افشاں چلو، مست و رقصاں چلو

خاک بر سر چلو، خوں بداماں چلو

ہم نے بھی ہتھیارڈالتے ہوئے یہ پیغام دیا

ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے

شہر جاناں میں اب باصفا کون ہے

دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے

رختِ دل باندھ لو دل فگارو چلو

پھر ہمیں قتل ہوآیئں یارو چلو

اور یوں ہماری سواری کا رُخ لبرٹی مارکیٹ کی طرف موڑ دیا گیا اور یہ بتانے کی ہر گز ہرگز ضرورت نہیں ہے کہ اچھرہ بازار والی مُشقت دوبارہ ہوئی اور لبرٹی کی پابجولاں سیر کے بعد فورٹریس مارکیٹ کی پابجولاں خاک بھی چھانی گئی۔

حارث مسعود

حارث مسعود کا تعلق لاہور سے ہے اور بنیادی طور پر آئی ٹی پروفیشنل ہیں۔ ایک معروف آئی ٹی فرم میں پراجیکٹ مینیجر کے عہدے پر فائز ہیں۔ اردو سے مُحبت رکھتے ہیں اور مزاحیہ پیرائے میں اپنے خیالات کا اظہار پسند کرتے ہیں۔ سیاست پر گُفتگو پسند تو کرتے ہیں لیکن بحث و مُباحثہ سے اجتناب بھی کرتے ہیں۔