1. ہوم/
  2. مزاحیات/
  3. حارث مسعود/
  4. بیادِ موصوف

بیادِ موصوف

آج صبح آنکھ کھلی تو ذہن بیتے وقت کی جانب دوڑ گیا۔ جب بے فکری تھی نہ فکرِمعاش نہ ذمہ داری کا بوجھ۔ یونیورسٹی کی زندگی بھی عجب ہوتی ہے، بندہ تیزی سے بےفکری سے فکر کی دنیا کی طرف جا رہا ہوتا ہے اور اس کو ادراک ہی نہیں ہوتا۔ لیکن آج یونیورسٹی یاد بھی ایک عظیم ہستی کی وجہ سے یاد آئی۔ یہ وہ ہستی ہیں جن پر دنیا ہنستی ہے۔ جن کی جتنی تعریف کی جائے زیادہ ہے۔ ان کا نام فساد فی الارض کی وجہ سے من وعن نہیں لکھا جا سکتا۔ آپ "موصوف" فرض کر لیں۔ جب ہم نے یونیورسٹی جانا شروع کیا تب وہ فائنل میں تھے اور جب ہم فائنل میں آئے تب بھی وہ فائنل میں ہی تھے۔

ان کا حلیہ ہی ان کی پہچان تھا۔ کالے گھنگھریالے بال، رنگ ایسا کہ کولتار بھی شرمائے، پستہ قامت، پکوڑے سے مشابہہ ناک اوپر سے پیلے دانتوں کی نمائش۔ ہم اپنے گھر کے بچوں کو موصوف کے نام سے ڈراتے تھے۔ لیکن موصوف نے اس حُسن پر کبھی غرور نہ کیا۔ ان کو یہ خوش فہمی تھی کے شاہ رُخ خان، سلمان خان اور اکشے کمار موصوف کے سامنے پانی بھرتے ہیں۔

موصوف جَگت بھائی تھے۔ حتی کہ پروفیسر صاحب بھی اُن کو روانی میں بھائی بول جاتے تھے۔ ہمارے ایک ہم جماعت جب فارغ ہو کر یونیورسٹی میں پروفیسر لگے تو موصوف اُن کی شاگردی میں آگئے۔ اب اُس استاد کی کیا حالت ہوئی ہوگی آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں۔

موصوف کو گُمان تھا کہ وہ کہنہ مشق گلوکار ہیں۔ اور اس کا عملی مظاہرہ وہ ہم لوگوں پر کرتے تھے۔ ادب آڑے آجاتا، نہیں تو دل کرتا تھا کہ اُن کو بتا دیں کے حضرت جب آپ گاتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے منی بیگم یویو ہنی سنگھ کے انداز میں گا رہی ہوں۔

موصوف بیہودہ گُفتاری اور شاعری میں یکتا تھے۔ لوگ دور دور سے اُن کی مُغلظات اور فحش لطائف سننے آتے تھے۔ فی البدیہ جُگت میں اُن کا دور دور تک کوئی ثانی نہ تھا۔ اگر اُن کے اقوال کو مرتب کیا جائے تو کئی کتابیں بھی کم پڑ جائیں۔ ذیل میں موصوف کے چیدہ چیدہ قابلِ اشاعت اقوال درج کئے جا رہے ہیں۔

1۔ یہ مت دیکھو کہ پہلے کیا کھایا ہے، یہ دیکھو اب سامنے کیا رکھا ہے۔

2۔ جہاں پکی دال وہاں ہے ہڑتال۔ جہاں دودھ ملائی وہاں بساط بچھائی۔

3۔ ہمیشہ دوسرے کی جیب سے کھانا چاہئے تاکہ ثواب کا موقع دوسرے کو ملے۔

الغرض اس قماش کے کئی اقوالِ زریں موصوف سے منسوب ہیں۔ بیشتر انتہائی لغو ہیں۔ ان کو لکھ کر میں ادارے کی بدنامی نہیں چاہتا ہوں۔

اِن سب کے علاوہ موصوف عشق کے معاملے میں خاصے خودکفیل تھے۔ اُن کے ظاہری خدوخال پر روشنی تو ہم ڈال ہی چکے ہیں اور آپ ان کی اپنے بارے میں خُوش فہمی سے بھی واقف ہوگئے ہیں، لیکن خواب اُن کے ایشوریہ رائے سے کم نہ تھے۔ اِن زمینی حقائق جاننے کے بعد بھی موصوف ہر ہفتے بلاناغہ پہلے سے بھی زیادہ شدت سے نئے عشق میں مبتلا ہوتے۔ ہمیشہ کی طرح کوچئہ یار سے ملاقات کے چند منٹوں کے بعد بے آبرو ہوتے۔ لیکن کبھی ہمت نہیں ہاری، ہر دفعہ محمود کی طرح سومنات کے مندر پر حملہ کرتے اور ناکام ہو جاتے تھے۔ لیکن ثابت قدمی پر آفرین ہے کبھی بھی بددل نہ ہوئے۔ بیسیوں بار نازنینوں کے ہاتھوں زدوکوب ہوئے۔ کئی دفعہ کسی مہ جبیں کے عیال کے ہاتھوں ڈھول کی طرح بجائے بھی گئے۔ لیکن کمال کی ڈھٹائی پائی تھی موصوف نے، کبھی مایوس نہ ہوئے۔

موصوف تصویر اُتروانے کے بھی شائق تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم اُن تصاویرکو بچے ڈرانے کے لئے استمعال کرتے تھے۔ اب بھی کبھی وہ تصاویر سامنے آ جائیں تو دل دہل جاتا ہے۔

یونیورسٹی کے دن تمام ہوئے تو ہم فکرِروزگار میں لگ گئے اور گزرے ایام بُھولی بسری یاد بن گئے۔

کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب

آج تُم بے حساب یاد آئے

اس تحریر کا یہ مطلب نہیں کہ موصوف مرحوم ہو چکے ہیں۔ وہ ماشااللہ بقید حیات ہیں اور ابھی بھی دوستوں کے سینوں پر مونگ دل رہے ہیں۔ بس طریقہ کار میں جدت آگئی ہے۔ پہلے ہم اُن سے نالاں تھے اب ہماری بیگمات بھی اُن سے شاکی ہیں۔ اس کا تزکرہ اگلی نشت میں ہوگا۔

یار زندہ صُحبت باقی۔

حارث مسعود

حارث مسعود کا تعلق لاہور سے ہے اور بنیادی طور پر آئی ٹی پروفیشنل ہیں۔ ایک معروف آئی ٹی فرم میں پراجیکٹ مینیجر کے عہدے پر فائز ہیں۔ اردو سے مُحبت رکھتے ہیں اور مزاحیہ پیرائے میں اپنے خیالات کا اظہار پسند کرتے ہیں۔ سیاست پر گُفتگو پسند تو کرتے ہیں لیکن بحث و مُباحثہ سے اجتناب بھی کرتے ہیں۔