1. ہوم/
  2. مزاحیات/
  3. حارث مسعود/
  4. کثرتِ کسرت

کثرتِ کسرت

معزز قارئین ایک بار پھر ہم اپنے دردِ جگر جو کہ گُھٹنوں تک پہنچ چُکا ہے کو لیکر آپ کے سامنے پھر حاضر ہیں۔ کولیسٹرول اور یورک ایسڈ کی زیادتی نے کس بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے۔

لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے

یہ تو وہی جگہ ہے گزرنا نہ چاہیں ہم جہاں سے

چلو لحم سے تو پرہیز ہم طوعًا کرہًا کر ہی رہے تھے کہ ظالم ڈاکٹر نے ہم کو کسرت کا مشورہ دے ڈالا۔ زوجہ محترمہ بھی ڈاکٹر صاحب کی ہمنوا بن گئیں۔ قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے ہمارے دفتر میں ہمارے معزز سی ای او نے کسرت گھر بنا لیا تھا۔ تاکہ کوئی عُذر ہی باقی نہ رہے۔ تو پھر ڈاکٹر صاحب ہم کو اپنی ہمراہی میں کسرت گھر لے گئے۔ گویا اُن کو بھی ہماری نیت پر شُبہ تھا۔ وہاں کے ورزش اُستاد جو کہ چنگیزخان کے قبیلے سے کوئی تعلق رکھتے تھے نے ہم کو اپنی خشمگیں نگاہوں میں ایسے ٹٹولا جیسے قصاب قربانی کے جانور کو دیکھتا ہے۔ بس دانت گننے کی کسر باقی رہ گئی تھی۔ اُن اعلٰی حضرت کا خیال تھا کہ مستقل ورزش سے ہم فربہ سے سڈول ہو جائیں گے۔ قُربانی اور کسرت کا وقت اگلے دن کا مقرر کیا گیا۔ ہمیں اُس گھڑی اندازہ ہو گیا تھا کہ ہم پر ظُلم توڑنے والوں کی فہرست میں ایک اضافہ اور ہو چلا ہے۔

لیں جی امتحان کی گھڑی آن پہنچی، وقت مقررہ پر ہم مذبح خانے معذرت کے ساتھ کسرت گھر پہنچ گئے۔ ہم کو ایک سایئکل پیش کی گئی۔ ہم بھونچکا رہ گئے۔ وہ مشین سایئکل سے میل کھاتی تو تھی لیکن سایئکل ہرگز نہ تھی۔ بھئ کبھی کوئی سایئکل دیکھی ہے جس میں پہیے ندارد ہوں۔ ایسی سایئکل تو مرزا کی ہوسکتی تھی۔ ہماری ہونّق شکل کو دیکھتے ہوئے ورزش اُستاد صاحب نے ہماری کم علمی کا ماتم کرتے ہوئے فرمایا میاں اگر سایئکل میں پہیے لگے ہوں تو آپ پیڈل مارتے مارتے گُجرانوالہ پہنچ جائیں گے اور پھر سے ہریسے اور تکّوں پر حملہ آور ہو جائیں گے۔ لہذا مزید وقت ضائع نہ کریں اور قدم رنجہ فرمایئں۔ لیکن یہ بات ماننی پڑے گی کہ سایئکل جدید طرز کی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی ہوائی جہاز کے کاک پِٹ میں بیٹھے ہیں۔

لیکن جب پیڈل مارے تو یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ جتنی خُوش شکل یہ سایئکل تھی اُتنی خُوش سیرت نہ تھی۔ اِس کی سواری کرکے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کوہ ہمالیہ سر کر رہے ہوں۔ چند ہی منٹوں میں ہم پسینے میں شرابور ہو گئے۔ ملتجائی نگاہوں سے ہم نے جلاد نما ورزش اُستاد کو دیکھا لیکن اُس کی آنکھوں میں رحم کی قُمق نہ پا کر دوبارہ اپنے پیروں کو تکلیف دینے لگے۔ یہاں تک کے پورے جسم ناتواں کے سارے عضلات بھی زوروشور سے ہماری مذہبی جماعتوں کی طرح سراپاء احتجاج ہو گئے لیکن ظالم کے کان میں جوں تک نہ رینگی۔

اِک شور برپا ہے خانہء دِل میں

کوئی دیوار سی گری ہے ابھی

پھر سُرعت کے ساتھ دماغ کی بتّی جلی اور ہم نے پیڈل مارنا ترک کردئے۔ جلاد نے خُون آشام نگاہوں سے گُھورا اور استفسار کیا۔ تو ہم نحیف آواز میں بولے کہ حضرت ڈھلوان آ گئی ہے۔ تو وہ گویا ہوئے قبلہ و کعبہ یہ سایئکل صرف چڑھائی چڑھ سکتی ڈھلوان پر لُڑھک نہیں سکتی۔ اگر عام سایئکل چلا لیتے تو بخُدا اتنا پٹرول بچا لیتے کہ ایک اور گاڑی خرید لیتے۔ خیر آدھے گھنٹے کی مُشقّت کے بعد انچارج صاحب نے ہماری خطا معاف کی اور سایئکل سے نیچے تشریف لانے کا حُکم صادر فرمایا۔ یقین مانیں وہ بول قند کی طرح کانوں میں گُھل گئے۔ ابھی اوسان بحال کر ہی رہے تھے کہ ورزش اُستاد صاحب نے نوید سنائی کہ کل سے سزا میں روزانہ کی بنیاد پر پانچ منٹ کا اضافہ ہو گا۔ عزیزِمن اِتنی تیزی سے تو ہمارے حکمرانوں کا سوئس اکاوئنٹ اور مُلک پر بیرونی قرضہ نہیں بڑھتا۔ یہ سوچ کر ہی اہلیہ، ڈاکٹر اور ٹرینر کی شکل آنکھوں کے سامنے لہرا گئی۔ جب کسرت گھر سے نکل رہے تھے، تو ہمارا وجود سُوکھے پتّے کی طرح لرزہ تھا۔

یک نہ شُّد کتنے شُّد ابھی ہم اپنی کم خوراکی کا رونا رو رہے تھے اب یہ کسرت۔ یہ کثرتِ کسرت کہیں ہم کو حرفِ غلط کی طرح مٹا نہ دے۔ ہمارا بس چلے تو کسرت گھر کے سامنے اپنے آپ پر مٹی کا تیل ڈال کر آگ لگا دیں لیکن کمبخت مٹی کا تیل بھی مہنگا ہو گیا ہے۔

کسی سیانے (ہم نہیں) نے کہا ہے کہ حرکت میں برکت ہوتی ہے جبکہ ہم صرف حلوے کی برکت میں یقین رکھتے ہیں۔ اب دیکھیں کیا آپ نے کبھی مولانا فضل الرحمان یا مولانا طاہر اشرفی کو کولیسٹرول یا یورک ایسڈ کے فراق میں مُبتلا دیکھا ہے۔ غور فرمائیے گائے سارا دن چارہ گھاس کھاتی ہے کتنی چربیلی اور فربہ ہے۔ اور چیتا جو زندہ ہی گوشت پر ہے کتنا سڈول ہے۔ پس ثابت ہوا کہ گھاس کھانے سے بندہ سڈول اور چُست نہیں ہوتا اور گوشت کھانے سےفربہ اور سُست نہیں ہوتا۔ لیکن یہ بات دنیا کو سمجھ نہیں آنی۔

ہم نے کچھ دن کسرت کی چند دن تو تکلیف دہ گُزرے لیکن پھر ہم عادی ہو ہی گئے۔

رنج سے خُوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں اتنی پڑی کہ آساں ہوگئی

ابھی وزن کم کرنے کا ہدف بہت دور ہے۔ تب تک کتنے امتحانوں سے گُزرنا ہے کچھ پتا نہیں۔ گوشت کے پاس نہیں پھٹکنا ہے، دال سبزی پر گُزارہ کرنا ہے اور قوی محضل نہ ہوں اُس کے لیے کسرت بھی کرنی ہے۔ قاریئن سے گُزارش ہے کہ ہماری ثابت قدمی کے لئے دُعا کریں۔

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے اِمتحاں اور بھی ہیں

حارث مسعود

حارث مسعود کا تعلق لاہور سے ہے اور بنیادی طور پر آئی ٹی پروفیشنل ہیں۔ ایک معروف آئی ٹی فرم میں پراجیکٹ مینیجر کے عہدے پر فائز ہیں۔ اردو سے مُحبت رکھتے ہیں اور مزاحیہ پیرائے میں اپنے خیالات کا اظہار پسند کرتے ہیں۔ سیاست پر گُفتگو پسند تو کرتے ہیں لیکن بحث و مُباحثہ سے اجتناب بھی کرتے ہیں۔