1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حارث مسعود/
  4. کارپوریٹ جنگل

کارپوریٹ جنگل

چندروز قبل ہمارے عزیز دوست اور قاری جناب وجاہت کی کال آئی۔ مُحترم کافی سیخ پا تھے۔ وجہ یہ تھی کہ ہم نے پِچھلے پانچ ماہ سے وعدے کے برخلاف ایک بھی کالم نہ ارسال کیا۔ اب کیا بتائیں کہ ہم کس بحرِ بیکراں میں غوطہ زن تھے۔ اُن کو بارہا بتایا کہ بھائی کالم لکھنے سے روزی نہیں ملتی لیکن وہ نہ مانے آج کل دفتری کام کا دباؤ زیادہ ہے لیکن حضرت نہ مانے۔ پھر ہم بھی مان گئے لیکن جب قلم اُٹھایا تو قلم سے شوخ جُملے نہ نکلے جن کی وجہ سے لوگوں کی مُسکراہٹ واپس آئے اور جو ہماری تحریر کا شاخصانہ ہے۔ ہمت ہارنے والے تھے کہ ایک اور دوست ڈاکٹر عُثمان کا فُون آگیا۔ اُن سے دس منٹ کی گُفتگو نے کالم کا موضوع دے دیا۔ حالانکہ موضوع ابھی بھی شوخ نہ تھا لیکن ایک سماجی بگاڑ پر تھا تو دِل پر پتھر رکھ کر لکھ ہی لیا۔ اُمید کرتا ہوں کہ آپ کو پسند آئے گا اور اپنی عملی زندگی میں اِس پر ہم عمل بھی کریں گے۔

پاکستان میں متوسط طبقہ بہت کثیر تعداد میں ہے اور اُس میں اکثریت نوکری پیشہ ہے۔ یہ وہی طبقہ ہے جس کے بارے میں کارل مارکس نے کہا ہے کہ انقلاب کی راہ میں سب سے بڑی مزاحمت یہی لوگ کرتے ہیں کیونکہ اِن کے قدم کیچڑ میں اور نگاہ ستاروں پر ہوتی ہیں۔ اِس طبقے کو غلط فہمی ہوتی ہے کہ وہ پیسہ جوڑ کر اور بچت کر کے امیر ہو جائیں گے اور اسی غلط فہمی کے ساتھ دارِفانی سے کُوچ کر جاتے ہیں۔ پاکستان میں ٹیکس محاصل میں بہت بڑا جزو اسی طبقے کا ہے اور پھر بھی کافی معاملات میں اِستحصال کا شکار ہے۔

پاکستان دماغی صحت کے مسائل میں تیزی سے اُوپر جا رہا ہے اور قابلِ فکر بات یہ ہے کہ متوسط نوکری پیشہ طبقہ ہی ہے جو سب سے زیادہ ایسی اُلجھنوں کا شکار ہے۔ ایک عمومی غلط الغلط ہے کہ نفسیاتی علاج صرف پاگلوں کا ہوتا ہے۔ اسی کم علمی کا وجہ سے لوگ نفسیاتی معالج کا رُخ نہیں کرتے۔ لوگ کیا کہیں گے کہ پاگلوں کے ڈاکٹر کے پاس جا رہا ہے۔

اگر آپ گھر جا کر بھی اپنی ای میل دیکھتے ہیں۔ دفتری معاملات کو سر انجام دیتے ہیں، فون پر وقت گُزارتے ہیں۔ اہل و عیال کو کم وقت دے رہے ہیں۔ رات کو بھرپُور نیند سے محروم ہیں یا چوکس نیند کا شکار ہیں۔ تو آپ کو پہلی فُرصت میں کسی مُعالج کی ضرورت ہے۔

اب آتے ہیں کہ ہمارا دفتری ماحول کتنا ذمہ دار ہے اِس سب کا۔ ہر سال ہماری یونیورسٹیاں ہزاروں کی تعداد میں نیا ٹیلنٹ کارپوریٹ سیکٹر کو دیتی ہیں۔ اِس نئی پود کو اپنی قابلیت پر گُمان ہوتا ہے کہ وہ باقیوں سے الگ ہیں، بہتر ہیں اور جاتے ہیں کمپنی کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال لیں گے۔ نیا آنے والا کیا کیا بدلے گا، اپنا مُوڈ، اپنی فطرت یا اپنے سینئر کا رویہ۔ بارہ سال کی بنیادی اور چار سال کی عملی تعلیم باپ کی کمائی سے مُکمل کرنے کے بعد دفتر میں ہر سال، ہر فلور پر پچاس نئے لوگ اوپر بتائے گئے ولولے، امید اور جذبے کے ساتھ بھرتی ہوتے ہیں۔ لیکن کارپوریٹ جو پہلے سے کئی سال لگا چُکے ہوتے ہیں اُن نوجوانوں کو بدل ڈالتے ہیں۔ یقین جانئے یہی وہ خِشتِ اوّل ہے جو ایک ذہنی بیماری کو جنم دیتی ہے۔ جب وہ نوجوان بدل جاتے ہیں تو اُن کا ایک ہی مقصد رہ جاتا ہے "پیسہ" اور پھر ہم ہی کہتے کے آج کل کی نئی پود کو کیا ہو گیا ہے یہ صرف پیسے کے پیچھے ہی بھاگتی ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ حقدار کو جائز کریڈٹ نہیں ملتا۔ میڈیا انڈسٹری میں اگر کوئی فلم بنتی ہے چائے پلانے والے کا نام بھی کریڈٹس لسٹ میں آتا ہے۔ اور جب وہ اپنا نام لسٹ میں دیکھتا ہے تو اس کے ویک انڈز ایکسٹرا آورز سب کے سب باعثِ راحت بن جاتے ہیں۔ لیکن کارپوریٹ مُلازمین جیتے ہی ویک اینڈ کے لئے ہیں۔ وہ روزانہ دفتر آتے ہیں اور پُورا ہفتہ اِنتظار کرتے ہیں ویک اینڈ کا کیونکہ یہ وہی دو دن ہوتے ہیں جِن میں اِن کو موقع ملتا ہے

"Credit hungry, non-appreciating, Non recognizing, non-cooperative"

ما حول سے چُھٹکارہ پانے کا۔ معذرت کے ساتھ اُوپر لکھے ہوئے انگریزی کے الفاظ اس کارپوریٹ دنیا میں بہت استعمال ہوتے ہیں، اسی وجہ سے میں نے مِن و عِن لکھ دئے۔

اور جب اُس نوجوان کو پتا چلتا ہے کہ وہ کُچھ نہیں بدل سکتا تو وہ اپنی کمپنی بدل لیتا ہے اِس اُمید پر کہ شاید نئی جگہ کُچھ مُختلف ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ پھر کُچھ عرصہ کے بعد وہ بھی اسی کارپوریٹ جنگل کا ایک شیر بن جاتا ہے جو وہی کرتا ہے جو اُس کے اپنے ساتھ ہوا ہوتا ہے۔ اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ کوئی اس کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتا کیونکہ سب

اِس سسٹم کا حصّہ بننے میں خوش ہیں۔

ہم میں سے سب نے یہی سب اپنے کیرئیر میں دیکھا اور سہا لیکن کِتنوں نے سوچا کہ نہیں اب میری ٹیم کے ساتھ ایسا نہیں ہوگا۔ کتنوں نے کارپوریٹ عینک اُتار کردیکھا۔ جب میں نے خُود نہیں دیکھا تو باقیوں سے کیا اُمید رکھوں۔ اِن مسائل کے بہت سارے حل ہیں اور ہم سب جانتے بھی ہیں۔ ایک دفعہ آزما کے تو دیکھیں۔ لیکن ہم نہیں آزمائیں گے کیونکہ کارپوریٹ زنجیر اور انا بہت مضبوط ہوتی ہے۔

نہ خنجر اُٹھے کا نہ تلوار اِن سے

یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں

حارث مسعود

حارث مسعود کا تعلق لاہور سے ہے اور بنیادی طور پر آئی ٹی پروفیشنل ہیں۔ ایک معروف آئی ٹی فرم میں پراجیکٹ مینیجر کے عہدے پر فائز ہیں۔ اردو سے مُحبت رکھتے ہیں اور مزاحیہ پیرائے میں اپنے خیالات کا اظہار پسند کرتے ہیں۔ سیاست پر گُفتگو پسند تو کرتے ہیں لیکن بحث و مُباحثہ سے اجتناب بھی کرتے ہیں۔