1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حارث مسعود/
  4. میرے درد کو جو زباں ملے (1)

میرے درد کو جو زباں ملے (1)

مُحترم قارئین! آج آپ کی خدمت میں دو نوجوانوں کی کہانیاں پیش کر رہا ہوں۔ کردار فرضی ہیں کسی قسم کی مُماثلت محض اتفاقیہ ہوگی۔ ان دونوں کی کہانیاں انہی کی زبانی پیشِ خدمت ہیں۔

میرا نام "عُمیر علی ولد نُور علی" ہے۔ میں نے خُوشاب کے نواحی گائوں میں آنکھ کھولی۔ میرے علاوہ میری دو چھوٹی بہنیں ہیں۔ والدین کے بُڑھاپے کا میں ہی سہارا تھا۔ اُن کی شدید خواہش تھی کہ میں پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنوں۔ اُن کے خواب کی تکمیل میرے لئے کسی بھی امر سے زیادہ اہم تھی۔ خوشاب شہر سے میٹرک کے بعد میں نے علاقے میں واقع واحد ڈگری کالج میں داخلہ لے لیا۔ میرے والد پنج وقتہ نمازی تھے، اُن کے ساتھ میں بھی نمازِ باجماعت کا عادی تھا۔ ہمارا علاقہ چھوٹا سا تھا سب سے شناسائی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن جُمعے کی نماز میں کچھ ناآشنا چہرے نظر آئے۔ بعد از نماز جمعہ امام صاحب نے اُن کا تعارف کرایا۔ اور اطلاع دی کہ آج نماز عصر کے بعد درس کا اہتمام ہے۔ اور تما م حضرات سے التماس ہے کہ شرکت فرمائیں۔

ہم دونوں نے نماز کے بعد درس میں شرکت کی۔ درس میں امام صاحب کےمہمانوں نے جہاد کی فرضیت پر روشنی ڈالی۔ ہم لوگوں کو بتایا کہ مسلمان کا کوئی وطن نہیں ہوتا۔ جہاں بھی کوئی غیر مُسلم کسی مُسلم پر ظلم کرتا ہے تو باقی مُسلم امہ پر جہاد فرض ہو جاتا ہے۔ پھر انہوں نے افغانستان اور پاکستان کے مزہبی اور اخوی تعلق کا زکر کیا۔ پھر بتایا کہ کیسے رُوس ہمارے برادر اسلامی ملک افغانستان پر چڑھ دوڑا ہے۔ وہاں پر مُسلم امہ پر ظلم توڑا جا رہا ہے۔ اِن حالات پر ہر مسلمان پر جہاد فرض ہوگیا ہے۔ اُس کے بعد اُنہوں نے بتایا کہ وہ مزید دو دن امام صاحب کے یہاں قیام کریں گے۔ میرے والد نے اُن کے رات کے کھانے کی ذمہ داری لے لی۔ رات کو عشا کے بعد میری پھراُن حضرات سے مُلاقات ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت جہاد کے لیئے مسلمان نوجوانوں کی سخت کمی ہے۔ اگر میں چاہوں تو وہ مجھے میدانِ جنگ تک پہنچا سکتے ہیں۔

وہ رات میں نے آنکھوں میں کاٹی۔ ساری رات افغان بھایئوں پر ہونے والا ستم میرے سامنے فلم کی طرح چلتا رہا۔ فجر کی اذان سے پہلے میں ایک فیصلہ کر چُکا تھا۔ جب میں نے اپنے فیصلے سے اپنے ماں باپ کو آگاہ کیا تو ماں کا دل ڈوب گیا۔ لیکن میرے باپ کا سینہ چوڑا ہو گیا۔ عصر کے بعد ہم نے پھر مہمانوں کی خدمت میں حاضری دی اور اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔ وہ بہت خوش ہوئے اور ہمیں مبارکباد دی کہ ہم کو اللہ نے خاص مقصد کے لئے چُن لیا ہے۔

اور پھر وہ دن آ گیا جس کا سب کو انتظار تھا، پورے علاقے سے میرے علاوہ کچھ اور نوجوان بھی تھے۔ ماں بہنوں نے بلائیں لی، امام ضامن باندھا۔ باپ نے سینے سے لگایا اور کہا بیٹا، میں بھگوڑے کے باپ کے بجائے شہید کا باپ کہلانا بہتر سمجھوں گا۔ اور یوں ہمارا قافلہ گائوں والوں کی دعاؤں کی چھاؤں میں اپنی منزل کی جانب چل پڑا۔ ہمارا قافلہ چند دِنوں کی مُسافت طے کرکے افغان سرحد سے مُلحقہ ایک گاؤں میں پہنچ گیا۔ رفتہ رفتہ مُلک کے دوسرے علاقوں سے لوگ بھی آتے جا رہے تھے۔ ایک دن کے آرام کے بعد تربیت کا آغاز ہوا۔ ایک مہینے کی سخت جسمانی اور اسلحہ چلانے کی تربیت کے بعد ہم لوگ عملی محاذ پر جانے کے قابل ہو گئے۔ یہاں ہمیں یہ پتا چلا کہ ہم اکیلے نہیں، بلکہ عرب مُمالک اور ہمارے اہلِ کتاب بھائی بھی ہمارے ساتھ مُنکرِ خدا کے خلاف سینہ سِپر ہیں۔

ایک دِن ہمارے کمانڈر نے ہم سے خطاب کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ شہید مرتا نہیں ہے۔ دُشمن کو کاری ضرب لگائو اور مار ڈالو۔ اگر مرگئے تو شہید، بچ گئے تو غازی۔ شہید کے نصیب میں حُور ہوتی ہے جو تُم کو حوضِ کوثر پر لے جائے گی۔ تا قیامت ثواب الگ۔ اہلِ خانہ بھی تُم پر فخر کریں گے۔ اس خطاب کے بعد شوقِ شہادت اور بڑھ گیا۔ اسی طرح ایک دن ہم خوست افغانستان میں داخل ہوگئے۔ وہاں ہمارے علاوہ اور بھی مُجاہدین تھے، جو مُختلف ممالک سے آئے ہوئے تھے۔ ہمارا پہلا معرکہ ہرات کے پاس ہوا۔ اِس میں ہمارے دو مجاہدین شہید ہوئے اور پندرہ رُوسی جہنم واصل ہوئے۔ ہم چُھپ کر وار کرتے اور پھر پہاڑوں میں گُم ہوجاتے۔ میرے والدین کو میری کامیابیوں کی خبر قاری صاحب کی وساطت سے ملتی رہتی تھی۔

ہمارے کمانڈر نے ایک دن فجر کے وقت ہمیں بتایا کہ، ہم نے قندھار کے پاس روسی افواج کے اسلحہ کے ذخیرے پر حملہ کرنا ہے۔ اِس میں جان کا بہت خطرہ ہے لیکن مُجھے کوئی پرواہ نہ تھی کیونکہ میں تو آیا ہی شہادت کی چاہ میں تھا۔ چُونکہ یہ ایک خطرناک مشن تھا، اس لیے ہم میں سے بہترین لوگ ہی مُنتخب کیے گئے تھے۔ میرا نام بھی اُن چُنیدہ افراد میں تھا۔ میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ منہ اندھیرے ہم لوگ ہدف کی جانب چل پڑے، لیکن اِس بار روسی ہم سے ایک قدم آگے تھے۔ ہمارا قافلہ اندھیرے راستے پر گامزن تھا کہ اچانک رُوسی طیاروں نے حملہ کر دیا۔ چاروں طرف دھماکے ہو رہے تھے۔ ہم سنبھل بھی نہ پائے تھے اور پھر دنیا اندھیر ہو گئی۔

اب میں "عمیر علی ولد نور علی" کی روح آپ سے مُخاطب ہوں، ہمیں بتایا گیاتھا کہ ہم جنت کی راہ کے مُسافر ہیں لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہاں درد ناک اندھیرا ہے۔ ماں مُجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ ہم جہاد نہیں کر رہے تھے ہم کرائے کے فوجی تھی۔ دو ہاتھیوں کی لڑائی کا ایندھن تھے۔ اور ہاتھیوں کی جنگ میں جو گھاس کا حال ہوتا ہے وہی ہمارا ہوا۔ میرے بوڑھے باپ کو جب میری شہادت کی خبر ملی تو گھر پر مُبارکباد کا تانتا بندھ گیا۔ پھر لوگ بھی بھول بھال گئے۔ چند دن تو فخرو انبساط میں گُزرے لیکن پھر وقت کے بے رحم تھپیڑوں نے میرے باپ کو اِتنا ناتواں کردیا کہ ایک رات وہ سویا تو سوتا رہ گیا۔ میری ماں پر پورے کُنبے کی زمہ داری آن پڑی۔ اور زندگی کے باقی ایام انہوں نے کسمپرسی کے عالم میں گُزارے۔ یوں ہمارا ہنستا بستا گھرانہ چند عاقبت نااندیش لوگوں کے مفاد کی بھینٹ چڑھ گیا۔

میری خاموشی کو بیاں ملے

میرے درد کو جو زباں ملے

مجھے روشنی کی تھی جُستجُو

میرا دن ہوا کسی رات سا

میری حسرتیں میرے رُوبرو

مجھے اپنا نام و نشاں ملے

( جاری ہے)

حارث مسعود

حارث مسعود کا تعلق لاہور سے ہے اور بنیادی طور پر آئی ٹی پروفیشنل ہیں۔ ایک معروف آئی ٹی فرم میں پراجیکٹ مینیجر کے عہدے پر فائز ہیں۔ اردو سے مُحبت رکھتے ہیں اور مزاحیہ پیرائے میں اپنے خیالات کا اظہار پسند کرتے ہیں۔ سیاست پر گُفتگو پسند تو کرتے ہیں لیکن بحث و مُباحثہ سے اجتناب بھی کرتے ہیں۔