1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حارث مسعود/
  4. سیلفی

سیلفی

کچھ عرصہ قبل ایک تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا۔ مشاہدے کی بْری عادت کی وجہ سے بقول کرنل شفیق الرحمان گھورنا بلتحقیق کا مرتکب ہو رہا تھا۔ عجب سا ماحول تھا۔ میرے جیسے کچھ لوگ طعام کی آس میں گھڑیاں گن رہے تھے۔ کچھ اس صبر کے لمحات کو حالات ِ حاضرہ کی گفتگو سے بہلا رہے تھے۔ جبکہ کچھ لوگ فواروں اور برقی قمقموں کےساتھ اور جن کو جگہ نہیں ملی وہ بچوں یا دوستوں کے ہمراہ اپنے فون کے ساتھ شغل میں مصروف تھے۔ کچھ لوگ اپنے فون کو اپنے سے تھوڑا دور کر کے اپنی خودی کو بلند کرتے ہوئے اپنی تصویر آپ اتار رہے تھے۔

اُس دن سیلفی کو قریب سے دیکھنے اور تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا۔ ہم جیسے پیٹ کےہاتھوں مجبور لوگ شادیوں میں کھانا تناول کرنے ہی جاتے ہیں۔ لیکن ہماری سالی اِس انمول گھڑی میں بھی اپنی سہیلیوں کے ہمراہ اسی "مشغلہء خُود تصویر کشی" میں مصروف تھیں۔ جب اُن کی توّجہ تناول ماحضر کی جانب مبزول کرائی گئی تو اُن کا جواب تاریخ میں سنہرے حروُف میں لکھنے لائق تھا۔"حارث بھائی شادی میں کھانا تو چلتا رہتا ہے، لیکن کپڑوں پر جو خرچا کیا وہ بھی تو وصول کرنا ھے"۔ لو جی ہم کو لاجواب ہونا ہی پڑا، آخر بحث کرکے اپنی نصف بہتر کی ناراضگی مول لینی تھی۔ پھر ایک اور صاحب جو کہ رشتے میں خسر بھی لگتے تھے اپنے موبائل کی اِستعداد کے باعث سیلفی تو نہ لے پا رہے تھے لیکن ہر کس و ناکس کو اپنی تصویر بنوانے پر مجبور کر رہے تھے۔ آداب آڑے آگئے اور ہم ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کے مصادق چُپ ہی رہے۔ قہر درویش بر جانِ درویش۔ آجکل تو یہ رجحان شیرخوار بچوں میں بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ میری شیرخوار بچی جوفقط ایک سال کی ہے، اپنی سالگرہ والے دن اپنی خالہ کے ساتھ اہتمام کوملحوظ خاطر رکھتے ھوئے سیلفی بنوا رہی تھی۔

یہاں پھر مُتجسس طبعیت آڑے آ گئی اور پھر ہم نکل پڑے کہ آخر اِس سیلفی میں ایسا کیا ہے کہ ہر بوڑھا، بچہ، جوان مردو زن اس کے عشق میں غلطاں ہے۔ ذیل میں کچھ دلچسپ حقایق اس سیلفی کے بارے میں پیش کیے جا رہے ہیں۔

سیلفی کوئی آج کا جنون نہیں بلکہ دو صدیوں سے حضرت انسان کے دماغ میں کلبلا رہا ہے۔ تاریخ کی پہلی مستندسیلفی سن1839 میں Robert Cornelius جس کو جدید امریکی فوٹوگرافی کا بانی بھی مانا جاتا ہے نے اُتاری۔ آسمان ترے لحد پر شبنم اشفانی کرے۔ کس مصیبت میں مبتلا کرا دیا ظالم نے۔

1966 میں ایک اور مشہور سیلفی نامور خلانورد Buzz Adrian نے 1966خلاء میں لے کر اپنا نام روشن کیا، واہ جی کیا یہی جگہ ملی۔

سیلفی کو اِس نام سے متعارف کرانے کا سہرا Jim Krause کے نام جاتا ہےجوکہ ایک اطالوی فوٹوگرافر ہے۔ چلو یہ تھے حضرت جنہوں نے اس کھیل کو نام دیا۔ 2012کے اِختتام پر ٹائم میگزین کے مطابق سیلفی سب سے زیادہ اِستمعال ہونے والے الفاظ میں سےایک ہے۔ کمال ہے دنیا کہاں جا رہی ہے۔ 2013 کے ایک سروے کے مطابق آسٹریلیا کی دو تہائی خواتین جن کی عمریں 18سے 35سال کے درمیان ہیں سیلفی کی شوقین ہیں۔ اِن فرنگیوں کو ہم سے خواہ مخواہ کا بیر ہے۔ اگر یہ سروے ہمارے ہاں ہوتا تو اتنے مرد حضرات بھی نکل آتے۔

23 نومبر 2014کے دن بروکلن نیویارک میں دو ہزار نفوس نے اجتماعی سیلفی بنا کر عالمی رکارڈ بنا ڈالا۔ نہیں نہیں ابھی اور عشق کے امتحان باقی ہیں۔

شوبز والے کہاں پیچھے رہ سکتے تھے۔ ہالی وُڈ کی مشہور سیلفی، Ellen DeGeneres نےلی۔ کہا جاتا ہے کہ اِس فیشن نما فتنےکو پروان چڑھانے کا موجب یہی سیلفی تھی۔ جبکہ فلم کی دنیا کی یادگار سیلفی Rowan Atkinson جِس کو دنیا Mr.Bean کے نام سے جانتی ہے نے 90 کی دہائی میں لی۔ نامور ہستیوں میں باراک اوبامہ، جنوبی کوریا کے صدر لی میونگ، بان کی مون، انجلا مرکل، پرویز مشرف، عمران خان بھی اِس کے شائق ہیں اور اپنے مداحوں کے شوق میں ساتھ بھی دیتے ھیں۔

کچھ ناخوشگوار واقعات بھی اِس شوق کے باعث پیش آ چُکے ہیں، جن میں سے ایک فلپائنی 14 سالہ لڑکی جو اپنی دوست کے ہمراہ سیلفی لیتے ہوئے سیڑھی سے گر کر جاں بحق ھوئی۔ تایئوان میں پہاڑ سے گرنے کے باعث کچھ اموات ہونے کی وجہ سے اس پہاڑ کو نو سیلفی زون قرار دے دیا گیا ہے۔ اپریل 2014 میں کینیڈا میں ایک نوجوان کو ٹراما سنٹر لایا گیا جس نے خودکشی کی ناکام کوشش کی۔ وہ دن کے دس سے بارہ گھنٹے اسی بے مصرف شوق میں صرف کرتا تھا۔ خودکشی کی وجہ بھی آئڈیل تصویر پانے میں ناکامی تھی۔

کچھ سیلفیاں متنازع بھی بنی جن میں کومل رضوی کی جناب عبدلستارایدھی کے ہمراہ، جناب جاوید چوہدری کی وزیراعظم کے وفد کے ہمراہ اور ہالینڈ کے صحافی کی جلتی ہوئی عمارت کے ساتھ لی گئ سیلفی شامل ہیں۔

University of Parma کی ایک تحقیق جو Nicola Bruno اور Marco Bertamin نامی پروفیسر نے کی۔ اُن کے مطابق ناتجربکار فوٹوگرافر سیلفی لیتے ہوئے کچھ غیراِرادی افعال کرتا ہے، جیسے بایاں رخسار کو اوپر کی طرف اُٹھانا اور دایاں رخسار نیچا کرنا ہے۔ اُن محققین کی نظر میں یہ سب ذہنی خلل کو ظاہر کرتا ہے۔ اِس خلل کا پہلا درجہ ہر موقع پر وجہ بلاوجہ تصویر لینا اور آخری درجہ خودکشی کی خواہش (Suicidal Thoughts) ہوتی ہے۔

یہ رجحان روز بروز بڑھتا جا رہا ہے لوگ کسی بھی موقعے پھر اس مشغلے سے چوکتے نہیں ہیں، چاہے کوئی تہوار ہو یا موقعِ غم۔ اس بے مقصد شوق کی وجہ سے لوگ اپنے آپ میں مست ہوتے جا رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے احباب عبادت گاہوں میں بھی بجائے عبادت کہ اسی عمل کو ایسے سرانجام دیتے ہیں جیسے سیلفی نے بخشوانا ہے۔ فیس بک، ٹویٹر، انستگرام جیسی سماجی رابطہ کے ذرایع کا موبائل کے ذریعے عام ہونا بہت سماجی بگاڑ کا باعث بن رہا ہے۔ انٹرنیٹ اس طرح کی بے سود تصاویر سے بھرا پڑا ہے۔ اعتدال ہر چیز میں لازم ہے۔ اگر آپ یا آپ کا عزیز اِس عادت میں مبتلا ہے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر عادت لت بنتی جا رہی ہے تو کسی بڑے نقصان سے بچنے کے لئے قبل از وقت علاج کروالینا چاہئے۔ یہ ایک کھیل تماشہ ہے جس سے فقط چہرے پر مُسکراہٹ ہی آنی چاہئے۔

حارث مسعود

حارث مسعود کا تعلق لاہور سے ہے اور بنیادی طور پر آئی ٹی پروفیشنل ہیں۔ ایک معروف آئی ٹی فرم میں پراجیکٹ مینیجر کے عہدے پر فائز ہیں۔ اردو سے مُحبت رکھتے ہیں اور مزاحیہ پیرائے میں اپنے خیالات کا اظہار پسند کرتے ہیں۔ سیاست پر گُفتگو پسند تو کرتے ہیں لیکن بحث و مُباحثہ سے اجتناب بھی کرتے ہیں۔