1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حارث مسعود/
  4. یادِ ماضی

یادِ ماضی

انسان کو اللہ نے ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے یہ الگ بات ہے کہ انسان فطرتاً ناشُکرہ ہے جس کی وجہ سے اُس کو اُن نعمتوں کا عُقدہ اُس نعمت کے رُخصت ہونے سے کُھلتا ہے۔ انسان کے پاس اللہ کی اُن ان گنت نعمتوں میں سے ایک نعمت اچھی بُری یادیں ہیں۔ جب ہم بچّے تھے اپنے والدین کو اپنا بچپن یاد کرتے دیکھتے تھے۔ اُس وقت یہ خیال آتا تھا کہ یہ تو بڑے ہیں۔ اِن کے اوپر تو سکول کالج کی ذمہ داری بھی نہیں۔ نہ اُن کو جلدی اُٹھنا پڑتا ہے اور نہ اُن پر والدین کی کڑی نظر ہے۔ گاڑی بھی چلاتے ہیں جبکہ ہم کو تو کھڑی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ بھی میسّر نہیں ہے۔ لیکن آج جب خود بچّوں والے ہوئے تو اپنے والدین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی بچپن کی یادوں میں کھو جاتے ہیں۔

جب ہم بچّے تھے تو دو کام بُہت اچّھے لگتے تھے ایک گاڑی چلانا اور ایک دستخط کرنا اور اب حال یہ ہے کہ دونوں سے ازلی نفرت سی ہو گئی ہے۔ جب سُکول جاتے تھے تو دفتر جانے کی تمنا کرتے تھے اور اب پھر سے سکول جانے کی۔

آج دفتر میں ائیرکنڈیشنڈ کمرے میں آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر بھی سکول کی گرمی کے موسم والی سخت بنچ یاد آتی ہے۔

آج جب میرے بچّے سارا ویک اینڈ ڈوریمون دیکھتے ہیں اور چینل بدلنے پر منہ بسورتے ہیں تو اپنا وقت یاد آتا ہے جب کارٹُون یا تو صبح سکول جانے سے پہلے چاچا جی (تارڑ صاحب) کے پروگرام میں یا پھر سات بجے کو دیکھنے کو ملتے تھے وہ بھی امّی کی مرضی ہوتی تو۔ یقین مانیں اُن چند منٹ کے کارٹون کی بھی قدر ہوتی تھی۔ پھر روزانہ آٹھ بجے سے پہلے ایک انگریزی سیریز دیکھنے کو مِلتی۔ چونکہ ہمارا بچپن زیادہ تر ضیائی اور باقیاتی دور میں گُزرا ہے تو ہم نے ہفتہ وار تعطیل جمعے کو ہی دیکھی ہے۔ تو جمعرات کی رات ایک فیچر فلم بھی دیکھی جاتی تھی۔ ہم ہی وہ لوگ تھے جنہوں نے دو چینل والا دور دیکھا۔ اُس دور میں دو چینل میں سے ایک وقت میں ایک ہی صاف شفّاف دیکھنے کو ملتا تھا۔ نہ ریموٹ کنٹرول کی عیاشی تھی۔

تو جناب ِمن اکثر و بیشتر چھت پر جا کر انٹینے کی سمت دُرست کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کرلئے جاتے تھے۔ مُجھے آج بھی یاد ہے کہ ہمارے گھر میں ڈائل والے دو ٹیلیفون تھے اور وہ ہم کو کسی نعمت سے کم نہ لگتے تھے۔ تب کراچی اپنی نانی سے بات کرنے کے لئے ٹرنک کال ملانی پڑتی تھی۔ سُکول ہفتے کے چھ دن جانا پڑتا تھا۔ بلکہ میں جس سکول کا پڑھا ہوں وہاں تو گرمیوں کی چُھٹی کا رواج بھی نہ تھا۔ دیر سے اُٹھنے کی عیاشی ویک اینڈ پر بھی میسّر نہ تھی۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ ہماری امّی کی نائب جگت اماّں تڑکے آجاتی تھی اور چونکہ جمعہ کا دِن ہوتا تھا اِس لئے اُن کو ہاف ڈے مِلتا تھا اور ہمارا فُل ڈے ہوجاتا تھا۔ جب ٹیلی ویژن پر پُورے دِن کی نشریات شُروع ہوئیں تب بھی ہمیں شام سے پہلے ٹی وی آن کرنے کی اجازت نہ تھی۔ ہمارے گھر میں ایک ٹیپ ریکارڈ تھا جس میں اپنی مرضی کی کیسٹ بجانا ہم بہن بھائیوں میں جنگ عظیم کے مُترادف تھا۔ سلامتی کونسل امّی کمزور پارٹی مابدولت پر اپنے تمام آلاتِ حرب آزما کر صُلح کراتی تھیں۔

جب تک گھر میں وی سی آر نہیں آیا، تب تک سال میں ایک یا دو دفعہ کرایہ پر لایا جاتا اور ساری فلمیں دیکھ لی جاتیں۔ اتنی کم مائیگی کے باوجود ہم کسی بھی فلم سے محرُوم نہیں رہے۔ آج بھی جب کسی چینل پر اپنے زمانے کی کوئی فلم چل رہی ہو تو گُزرا زمانہ یاد آ جاتا ہے کہ اُس وقت اِس فلم کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلے تھے۔ پورے گھر میں ایک ایئر کنڈیشنر ہوتا تھا اور سارا گھر اُسی کمرے میں فروکش ہوتا تھا۔ صبح ناشتہ ڈٹ کر کیا جاتا تھا اور پھر بھی بارہ بجے بُھوک کی ہاہا کار مچ جاتی تھی۔ کل میں اپنے سکول کی جانب نکل پڑا اور پیدل ہی اُن گلیوں میں مرزا کی طرح بھٹکنے لگا۔ سب کُچھ بُھول کر بچپن کی طرح نان ٹکی کھائی ایسا لگا وقت کوئی تیس برس پیچھے دوڑ گیا ہے۔ جب نان ٹّکی ختم ہوئی تو واپس حال میں آگیا۔ یقین مانیں جتنے میں کل ایک میں نے ٹُکی کھائی اتنے میں اپنے میٹرک کے زمانے میں تین دوست نان ٹکیاں کھا لیا کرتے تھے۔

جو مزہ سارے کُنبے کے ساتھ انٹینا والے گھر کے واحد ٹی وی پر"گیسٹ ہاؤس"، "پُتلی تماشہ" اور "عینک والا جن" دیکھنے میں آتا تھا ہے وہ اب ہر کمرے میں جدید ایل ای ڈی پر "میرے پاس تُم ہو" دیکھنے سے بھی نہیں ملتا۔ پہلے ہمارے گھر میں ایک ایئر کنڈیشنر تھا اور اب ہر کمرے میں الگ انورٹر ہے لیکن نیند میں وہ سکون نہیں ہے۔ پہلے شدید موسم میں دو بسیں بدل کر کالج جاتے تھے اور تھکتے نہیں تھے اور اب فُل آپشن آٹومیٹک کار میں گانے سُنتے ہوئے منزل پر پہنچنے کے بعد بھی تھکاوٹ ہوتی ہے۔ الغرض ہم نے تقریباً چار دہائیوں میں کیا کُچھ بدلتا نہیں دیکھا۔ ایک چینل والے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی سے سو چینل والے ایل ای ڈی تک، ڈائل گُھمانے والے ٹیلیفون سے آئی فون تک، پنسل سےکیسٹ کا فیتہ کسنے سے کلاؤڈ میوزک تک، کرایہ کے وی سی آر سے یوٹیوب تک ہم سب تغیر کے عینی شاہد ہیں۔ لیکن اِس کے بدلے ہم نے کھویا کیا ہے۔ ہم نے اکھّٹے بیٹھنا کھویا ہے۔ ہم نے ساتھ خُوش ہونا ساتھ رونا کھویا ہے۔ ہم وہ آخری لوگ ہیں جو عصر کےبعد گلیوں میں کھیلتے تھے اور ماں کے حُکم پر مغرب سے پہلے گھر آجاتے تھے۔ کیا ہمارے بچّے یہ سب کر سکتے ہیں۔ ہمارے بچّوں کے فیس بک پر بیسیوں اور آس پاس گنے چنے دوست ہونگے۔ اور پھر وہ وقت آئے گا جب دوستی ناطے، رشتہ داری سب سوشل میڈیا کی مرہونِ منّت ہوگی۔

گُزرا کل تو واپس آنہیں سکتا لیکن اپنی روایات کو زندہ رکھنا ہمارا ہی کام ہے۔ ہم اپنے بچّوں کو اِن مشینوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ ہم کو اپنے ماضی کو ٹٹول کر حال میں رہتے ہوئے اپنی اگلی نسل کا مُستقبل بنانا ہے نہیں تو ہم اپنے ماضی میں رہ جائیں گے او ر ہماری نسل اپنی اقدار فراموش کر بیٹھے گی۔

حارث مسعود

حارث مسعود کا تعلق لاہور سے ہے اور بنیادی طور پر آئی ٹی پروفیشنل ہیں۔ ایک معروف آئی ٹی فرم میں پراجیکٹ مینیجر کے عہدے پر فائز ہیں۔ اردو سے مُحبت رکھتے ہیں اور مزاحیہ پیرائے میں اپنے خیالات کا اظہار پسند کرتے ہیں۔ سیاست پر گُفتگو پسند تو کرتے ہیں لیکن بحث و مُباحثہ سے اجتناب بھی کرتے ہیں۔