1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حارث مسعود/
  4. زندگی بعد از لاک ڈاؤن

زندگی بعد از لاک ڈاؤن

کورونا وائرس کی وجہ سے ہم سب کی زندگی مُتاثر ہوئی ہے تو کئی راز بھی طشت ازبام ہوئے۔ جیسے کہ پہلے ہمارے باس کو لگتا تھا کہ ہم ویلے اور نکّمے ہیں اور اب ہماری اہلیہ بھی اُنہی کی ہم خیال ہیں۔ ہماری اہلیہ کا خیال ہے کہ ہم آفس میں بھی بس آرام کرنے جاتے تھے۔ اُن کا ماننا ہے کہ یہ کونسا کام ہے کہ سارا دن لیپ ٹاپ پر اُنگلیاں چلاتے ہیں اور کبھی کبھی بلاوجہ ہنسنے لگتے ہیں یا پھر فون میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ اور چونکہ ورک فرام ہوم ہے تو نہ ہم شیو کرتے ہیں، نہ ہی کنگھی، اور نہ ہے کپڑے بدلنے کا تکلّف اورکبھی کبھار کیا اکثر وبیشتر ہی صوفے پر ہی نیم دراز ہو کر ہی کام کیا جاتا ہے۔ تو اہلیہ کا شک تو لازمی ہے

ناصر کاظمی مرحوم نے کیا خُوب کہا ہے کہ

نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لئے

وہ شخص تو شہر چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لئے

اور جب اُن کو ناصر کاظمی مرحوم کے طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی گئی تو جواب ملا اچھا تو کِس کے لئے باہر جاتے تھے، کس چُڑیل کے لیے بال بنائے جاتے تھے، کس ڈائن کے واسطے نئے کپڑے پہنتے تھے۔ قصہ مُختصر بڑی مُشکل سے یقین دلایا کہ زوجہ ایک بار اپنے مجازی خُدا کی شکل اور توند تو دیکھیں کوئی نازنین اپنے دانت ہمیں دیکھ کر چبا سکتی ہے اُنگلیاں نہیں۔

کریلے پر نیم چڑھا، جب سے گھر میں کام کرنے والی ماسی نے بھی ورک فرام ہوم والا طریقہ اپنایا ہماری اہلیہ نے بھی ہم کو گھر میں ماسی کا اضافی چارج پیش کردیا ہے۔ ہماری داستان ِ غم یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کا دوسرا دن اِختتام پزیر ہوا تو ہم نے اپنا بِستر نُما دفتر چھوڑا تو اہلیہ گویا ہوئی کہ جب آپ تھائی لینڈ گئے تھے تو وہاں سے آپ نے اپنے ہاتھ کی پکائی گئی دال پنیر مکھنی کی تصویر فیس بُک پر لگائی تھی اور کئی احباب نے سراہا بھی تھا۔ ہم بھی ترنگ میں چھاتی پُھلا کر بولے ہاں اور جِن کو کھلائی تھی اُنھوں نے بھی تعریفوں کے پُل باندھ دیے تھے۔ تو جواب آیا تو کیا ہمیں نہیں کھلائیں گے۔ ہم نے اُسی سانس میں ہامی بھر لی اور پُوری دلجمعی کے ساتھ دال پنیر مکھنی بنانے میں جُت گئے۔ الغرض گائے کی ہڈیوں کی یخنی میں، مکھن اور پنیر کے ہمرکاب، دیسی گھی کے تڑکے ساتھ جب دال مکھنی پیش کی تو اہلیہ نے داد و تحسین کے ڈونگرے برسا دیے۔ ہمارا بڑھتا وزن اور بڑھ گیا۔

کھانے کے دوران ہی بیگم نے کہا چونکہ آپ نے باورچی خانے کا حُلیہ بگاڑ دیا ہے تو مُجھے پہلے جیسا ہی کچن چاہئے۔ مرتا کیا نہ کرتا بحالی مشن میں مصروف ہوگئے۔ اُفتاد تو تب پڑی جب برتن بھی دھونے کا اضافی کام سر پر پڑ گیا تھا۔ جب کام مُکمل ہوا تو بیگم نے تنقیدی جائزے کے بعد اثبات میں سر ہلا دیا۔ ویسے تو ہم نجی کمپنی کے مُلازم ہیں جن کا ماننا ہے کہ تعریف کے لئے نجی مُلازم کسی حد تک جا سکتے ہیں لیکن اس موقع پر تعریف سے زیادہ تنقید اچھی لگتی۔ تاکہ اگلی دفعہ اِس طرح کا کام نہ ملے۔ لیکن چونکہ ہم نے بغیر کسی مدد اور نگرانی (جو کہ ہماری اہلیہ کو ماسی کی کرنی پڑتی ہے) کہ ماسی سے بھی اچھا کام کیا تھا تو ہم کو کل کے لئے دم قیمہ بنانے کا حُکم صادر ہو گیا۔ کہنے کے ضرورت نہیں کے قیمہ بنانے کہ بعد بیگم کو کِچن پہلے سے بھی بہتر حالت میں چاہئے ہے۔

یہاں اپنے عزیز دوست موصوف کی یاد آئی اور دل میں اُن کی جو بے عزّتی تھی وہ تھوڑا کم ہوئی۔ اُن ایک قول یاد آ گیا کہ کوئی بھی کام اتنی عُمدگی سے نہ کرو کہ بعد میں وہ تُمہاری ذمّہ داری بن جائے۔ لیکن چونکہ تیر کمان سے نکل چُکا تھا اور آج لاک ڈاؤن کا دسواں روز ہے۔ شام چھے بجے کے بعد بیوی کی نوکری شروع ہوتی ہے جس کا آغاز بچّوں کی پڑھائی سے شروع ہوتا ہے اور ختم عشائیے کے برتن دھو کر ہوتا ہے۔ اس دوران ہماری اہلیہ ٹی وی پر ڈرامے دیکھتی ہیں۔

اگر کبھی دِل سرکشی میں آکر صدائے احتجاج بلند کروا ہی دیتا ہے تو مندرجہ ذیل سننے کو ملتا ہے۔

دیکھیں آپ کا آفس آنے جانے کا ٹائم بچ رہا ہے تو تھکاوٹ تو نہیں ہو گی۔

سارا دن آپ نے نیم دراز ہو کر گُزارا ہے تو اب تھوڑا ہِل جُل لیں۔

سارے کام میں ہی کروں۔

دیکھیں لیٹے لیٹے آپ کا وزن کتنا بڑھ گیا ہے۔

آپ لوگ بھی ایسی باتیں سُن رہے ہونگے۔ ہیں نہ۔ خیر دُعا ہے کہ یہ کرونا ہماری جلدی جان چھوڑے نہیں تو ہماری بیگم ہم کو اِس اسامی پر مُستقل نہ کردیں۔ ڈر تو اِس بات کا ہے کہ کہیں مابدولت اِس کو اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر حالات سے سمجھوتا نہ کرلیں۔

حارث مسعود

حارث مسعود کا تعلق لاہور سے ہے اور بنیادی طور پر آئی ٹی پروفیشنل ہیں۔ ایک معروف آئی ٹی فرم میں پراجیکٹ مینیجر کے عہدے پر فائز ہیں۔ اردو سے مُحبت رکھتے ہیں اور مزاحیہ پیرائے میں اپنے خیالات کا اظہار پسند کرتے ہیں۔ سیاست پر گُفتگو پسند تو کرتے ہیں لیکن بحث و مُباحثہ سے اجتناب بھی کرتے ہیں۔