1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. خالد زاہد/
  4. ابھی ذوق پرواز باقی ہے

ابھی ذوق پرواز باقی ہے

بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ ہماری زندگیاں کسی کوہلو کے بیل کی طرح گزرتی جارہی ہیں یعنی گردشِ ایام ایک مخصوص گرداب کی زد میں ہے۔ بقول شاعر کے ْرخ ہواؤں کا جدھر ہے ادھر کے ہم ہیں، انسانوں کی کثیر تعداد اسی ڈھب پر زندگیاں بسرکرتے چلے جارہے ہیں۔

اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنی بھوک سے بہت جلد پریشان ہوجاتے ہیں اور جلد از جلد سد باب کیلئے نکل پڑتے ہیں جسکی وجہ سے ہم کسی خاص مقصد پر یکسوئی کیساتھ کھڑے نہیں رہ پاتے۔ دور جدید میں بات بھوک سے بہت آگے نکل گئی ہے یا پھر یوں سمجھ لیجئے کہ بھوک بہت ساری مختلف شکلیں بدل کر پھیل گئی ہے یعنی آسائشوں کی طلب پیٹ کی بھوک سے بہت آگے لے گئی ہے۔

حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال نے بھوک کے جدید معنی اور اسکا اصل مقصد بہت پہلے ہی بھانپ لیا تھا، وہ یہ جان گئے تھے کہ اس بھوک کو دشمنانِ اسلام بطور ہتھیار استعمال کرنے کا بھرپور منصوبہ بنا چکے ہیں، تب ہی آپ نے امت کو اور بلخصوص برِ صغیر کے مسلمانوں کودرجہ ذیل شعر کے توسط سے آگاہ کردیا تھا کہ

عصرِ حاضر ملک الموت ہے تیرا، جس نے

قبض کی روح تیری دے کے تجھے

فکرِ معاش کسی بھی تحریک کی بنیاد کوئی نظریہ ہوتا ہے اور نظریہ بھی وہ جو خالص ہواور مقصد حقیقی اور خالص ہو، گوکہ نظرئیے کا حقیقی اور خالص ہونا وقت ثابت کردیتا ہے۔

ہم کتنی ہی ایسی تحریکوں کے گواہ ہیں جن کا آغاز تو ہوا لیکن انجام کے بغیر ہی دم دوڑ گئیں۔ لیکن ہم ایسی بھی تحریکوں کے گواہ ہیں کہ جن کو زندہ و جاوید رکھنے کیلئے ہر روز خون دیا جاتا ہے اورانہیں زندہ رکھنے والے ہر لمحہ خون دینے کو تیار رہتے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ خون دینے والے کیلئے صنف کی کوئی شرط نہیں عمر کی کوئی حد نہیں ہوتی۔

جیسا کہ مذکورہ بالا سطور میں رقم کیا گیا ہے کہ تحریک کے حصول کیلئے یکسوئی کا ہونا بہت ضروری ہے اور بھوک یکسوئی چھین لیتی ہے۔ بھوک لوگوں کو تقسیم کردیتی ہے بدقسمتی ہے ہم مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان ہم مسلمانوں نے ہی پہنچایا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہم اپنی بھوک کو قابو نہیں رکھ پاتے۔

ابھی ماہ مبارک رمضان سے گزر کر آرہے ہیں جو ہمیں اللہ کے حکم سے رک جانے کا درس دیتا ہے۔ کھانے پینے سے اوربرے کاموں سے دور رکھنے میں روزہ ڈھال کا کام دیتا ہے یہ روزہ ہماری تربیت کیلئے ہم پر فرض کیا گیا ہے یعنی ایک ماہ کی تربیت سارے سال کیلئے ہوتی ہے اور اسی طرح سے پھر ایک ماہ کے روزے آجاتے ہیں۔

لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ رب العزت کی رضا کیلئے صرف ایک مہینہ کسی حد تک رک جاتے ہیں لیکن یہ عمل ہماری زندگیوں پر کم ہی خاطر خواہ اثر اندازہوتی ہے۔ ایک طرف تاریخ کے مطالعے میں مسلمانوں کے سر فخر سے بلندہوجاتے ہیں جہاں حق و باطل کی جدوجہد کے عظیم مینار نصب ہیں اور ایسے ایسے کردار ہیں کہ جن کے کارنامے جسم میں جھرجھری لے آتے ہیں۔

اور اگر ان تاریخی صفاحات کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر مطالعہ کیا جائے تو میدان حرب کی دھول بھی اپنے جسم پر محسوس ہوتی ہے اور سورج کی تپش بھی جسم کو سینک پہنچانے لگتی ہے پھر تلواروں کی گھن گرج بھی خوب سنائی دیتی ہے اور اپنے اسلاف کیساتھ میدان حرب میں لڑنے کا شرف بھی میسر آجاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ امیر لشکر ہمیشہ آنکھوں سے اوجھل ہی رہتا ہے شائد اس میں بھی قدرت کی کوئی پردہ پوشی ہو۔

دوسری طرف دیکھیں تو اپنے ہی لوگوں کے ایسے کردار بھی جوق در جوق ملتے ہیں جنہوں نے اپنی ہی صفوں میں شگاف ڈالے اور سمندرکی طرح بپھرے ہوئے لشکر کو شکست کے منہ میں دھکیل دیا، یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کی مرہونِ منت ہماری تاریخ سیاہ ہوچکی ہے اور ہمارے کرداروں ہمیشہ کیلئے مشکوک قرار پاگئے ہیں، ایسے لوگوں نے نا صرف ہمارے اسلاف کو نقصان پہنچایا بلکہ انکی بھوک آج تک انکے جسموں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔

اور یہ ایسی بھوک ہے کہ جس کا کوئی اختتام دیکھائی نہیں دیتا۔ وطن عزیز کو موجودہ درپیش مسائل انتہائی درجے کے خطرناک ہوتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو موجودہ حکومت موروثی سیاست کی اعلی ترین مثال قائم کئے ہوئی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حکومتی ارکان ملک کا نظم و نسق چلانے نہیں بلکہ اپنے آباؤ اجداد کی چھوڑی ہوئی وراثت کو سنبھالنے آئے ہوئے ہیں۔

اگر یہ موجودہ حکومت عوام کی امنگوں کی ترجمانی کر رہی ہے تو پھر عوام سڑکوں پر کیوں نکل رہی ہے اور کیوں لا محالہ حکومتی ارکان ایسے بیانات دئیے جا رہے ہیں جس سے یہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ یہ بھوکوں کی حکومت ہے اور یہ اپنی بھوک مٹانے کیلئے بھیک مانگنے سے بھی گریز نہیں کرینگے۔

پاکستان تحریک انصاف کا اب ایک ایسی تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے جو ناصرف آپکو حب الوطنی کی طرف بلا رہی ہے بلکہ امت کو یکجاکرنے کی بھی کوشش کر رہی ہے۔ سماجی ابلاغ استعمال کرنے والے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف بین الاقوامی سطح پر پاکستانی اور اسلامی پرچم بلند کرنے میں سب سے آگے نکل چکی ہے۔

اب وہ وقت شروع ہونے والا ہے جب اسلامی عقائد پر قائم مذہبی جماعتیں پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کا باقاعدہ اعلان کرینگی اور عمران خان صاحب کے سچے ہونے کی گواہی دینگی۔ کیونکہ مسلۃ قومی خودداری سے آگے بڑھ کر ملی خودداری کی جانب پیش قدمی شروع کر چکا ہے۔

یہاں ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ جہاں ایک طرف اسلام کا مقدمہ لڑا جارہا ہے تو دوسری طرف حق خودارادیت کی جنگ بھی چھیڑی جا چکی ہے جس کی حمایت غیر مسلم کر رہے ہیں اور وہ اس بات کی توثیق کر رہے ہیں کہ کسی ملک کے معاملات میں خارجی عمل داری کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہوتی چاہے اسے کسی بھی نام سے رقم کیا جائے۔

بہت ہی قلیل وقت میں ایک ایسے شخص نے جو سیاست کا طالب علم رہا لیکن اس نے پاکستانی طرز کی سیاست نہیں کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کے آخری شب جب اسے اسکی ایمانداری اور حب الوطنی کی وجہ سے اقتدار سے محروم کیا جارہا تھا، ہر ایک اس چہرے سے نقاب ڈھلک گئے تھے جو فقط اپنی اپنی ذاتی انا کی خاطر اور سب سے بڑھ کر اپنی بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوچکے تھے۔

مورخین لکھ رہے ہیں کے یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے غلامی کا طوق اپنے ہاتھوں سے گلوں میں پہنا ہے اور انہیں ہاتھوں سے گدائی کا کشکول اٹھایا ہے، تاریخ انہیں بھی بلکل ویسے ہی معاف نہیں کرے گی جیسے ان سے بیشتر کو نہیں کیا ہے اور یہ لوگ تاریخ کے سیاہ باب کا حصہ بن جائینگے۔

ابھی تو عام انتخابات کا مطالبہ کیا جارہا ہے جس کیلئے تاخیری حربے استعمال کئے جارہے ہیں، کہیں ایسا نا ہوجائے کہ حکومت ِ وقت کا تختہ ہی پلٹ دیا جائے اور حکومت واپس بطور وزیراعظم عمران خان کے حوالے کردی جائے۔ قدرت کچھ بھی کروانے پر بھرپور قادر ہے اور پاکستان تو ویسے بھی اللہ تعالی کی ایک عظیم نعمت ہے جس کا قیام یقینا ایک عظیم مقصد ہے۔

اقبال کے شاہین ہی تھے جن کی مرہونِ منت پاکستان کا وجود عمل میں آیا تھا، اقبال کے شاہین ہیں جنہوں نے ہر برے وقت میں پاکستان کو اپنے پروں پر سنبھالے رکھا اور بس اتنا یاد دلانا چاہتے ہیں کہ شاہین کی ذوق پرواز آج بھی زندہ و جاویداں ہے۔

یقین سے لکھا جاسکتا ہے کہ تحریک پاکستان کے قائدین آسمان سے تحریک بحالی پاکستان کی بھرپور حمایت کر رہے ہونگے اور رب کے حضور اس تحریک کے روح رواں کی کامیابی کیلئے دعا گو ہونگے۔ واضح طورپر دیکھا جاسکتا ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس کرنے کو کچھ بھی نہیں ہے سوائے اسکے کے اپنی رہی سہی ساکھ بچانے کیلئے انتخابات کرائیں یا پھر اقتدار واپس منتقل کردیں، کہیں ایسا نا ہوکے راتوں رات وہ دیرینہ نظام نافذ العمل ہوجائے جسکے لئے کرہ ارض کو پاکستان جیسی نعمت سے اللہ پاک نے نوازا ہے۔