1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. خالد زاہد/
  4. ساری دنیا ایک طرف، پاکستان ایک طرف

ساری دنیا ایک طرف، پاکستان ایک طرف

زیا دہ تمہید باندھنے کا وقت نہیں اسلئے مدعہ پر آجاتے ہیں۔ سماجی ذرائع ابلاغ کے مطابق کروونا وائرس ایک سو تہتر ممالک تک پہنچ چکاہے اور متاثرہ افراد کی تعداد دولاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ مختلف ممالک نے مختلف اقدامات کئے ہیں لیکن سب سے اہم چین کے اقدامات ہےں جن کی بدولت (مورخہ 18 مارچ 2020) کو کروونا کا کوئی مریض نہیں آیا، یقینا یہ چین کے باشندوں کیلئے کسی جشن سے کم نہیں ہوگا اور حقیقت میں وہ تمام لوگ جنہوں نے اس وباء سے نمٹنے کیلئے اپنی خدمات پیش کیں اور اسے شکست فاش دی۔ دیگر ملکوں کے حالات کا اندازہ وہاں کئے گئے اقدامات کے نتیجے میں مریضوں کی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے۔ غالب گمان یہ بھی ہے کہ متاثرہ لوگوں میں اکثر عمر رسیدہ اور بڑھتی ہوئی عمر کے افراد شامل ہیں، اٹلی جیسے ملک میں اموات کی سب سے بڑی اہم وجہ بڑی عمر کے افراد کا زیادہ ہونا بتایا جا رہا ہے۔ جبکہ کرونا سے اموات کی شرح 3 فیصد بتائی جا رہی ہے۔ دنیا جہان کی بڑی نامی گرامی شخصیات کروونا کے وار سے محفوظ نہیں رہ سکیں، جن میں ایران کے اعلی سرکاری عہدیدارا ن بھی شامل ہیں، اسی طرح بلغاریا کے صدر، کینڈا کے وزیراعظم کی اہلیہ اور امریکہ کے بھی سرکاری اہلکار کروونا سے محفوظ نہیں رہ پائے۔ دنیا نے اس وقت سیاست، معیشت اور ہر طرح کے معاملات سے دھیان ہٹا کرساری توجہ کروونا سے نمٹننے پر مرکوز کر رکھی ہے اور اس میں مبتلا ہونے کے بعد کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے کام شروع کر رکھا ہے۔ کینڈہ، امریکہ اور دیگر کئی ترقی یافتہ ممالک کی حکومتوں نے اپنے شہریوں کی اگلے تین ماہ کی تمام تر ذمہ داری اپنے اوپر لے لی ہے۔ تین ماہ کی حد رکھنے کی جو وجہ دیکھائی دے رہے ہیں وہ سب سے زیادہ متاثر ہونے وال ملک چین ہے، چین نے تقریباً تین ماہ میں تمام تر صورتحال پر قابوپالیا ہے۔ جیساکہ مندرجہ بالا سطور میں تحریر کیا گیا ہے کہ چین میں نئے مریضوں کی شرح صفر ہوچکی ہے۔

ایک روز قبل پاکستان کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی صاحب نے اخبار والوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کی نا اہلی ہے کہ کروونا وائرس پاکستان میں موجود ہے (اس سے ملتی جلتی ہوئی بات کی)، اور گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر الزمان قائرہ صاحب نے بھی حکومت کے اقدامات پر تنقید کیلئے خصوصی گفتگو کی پھر کل ہی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف صاحب نے بھی پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت کو کروونا وائرس کیلئے کئے جانے والے اقدامات پر شدید تنقید کی، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب نے بھی حکومت کو کورونا کی پاکستان میں موجودگی کی وجہ حکومت کے گلے باندھ دی۔ مذکورہ حضرات پاکستان کے معززین ہیں سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن انکی ملک حیثیت دوسری شخصیات سے مختلف ہے جسکی وجہ انکی ان اہم عہدوں سے وابستگی ہے جن پر یہ فائز رہے یا ہیں۔ صرف یاد دہانی کیلئے 2005 کا زلزلہ، 2010 کا سیلاب کو لے لیجئے اور دیکھ لیجئے حکومت نے کیا اور کیسے اقدامات کتنے وقت میں کئے۔ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہ حکومتی طرز اقدامات نئے نہیں ہیں، فرق اتنا ہے جب حکومتی کرسیوں پر تھے اور آج کل کرسی دیکھائی نہیں دے رہی۔ کیونکہ ہم پاکستانی سیاست کو ہر معاملے میں گھسیٹ کر لے آتے ہیں۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارے ملک کے سیاست دان اپنی واہ واہ کرانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جیسا کہ کیا گیا۔ ملک کو اسوقت مکمل یکجہتی کی ضرورت ہے، افراد کو قوم بنانا ہے نا کہ کسی سیاسی جماعت کا رکن۔ وقت کا خطرناک ترین وائرس ہماری سرحدوں میں داخل ہو چکا ہے اب ہ میں اس سے نمٹنے کیلئے ایک صف میں کھڑے ہوجانا چاہئے اور اس وقت تک کیلئے بھلا دینا چاہئے کہ جب تک کروونا کو ملک سے نکال نہیں دیتے ہم ایک دوسرے کہ ساتھ ہیں۔

اختلافات ہی جمہوری سیاست کا حسن ہیں، تقریباً دنیا کا ہر ملک سیاسی اختلافات کی زد میں ہے اور آئے دن طرح طرح کی بیان بازیاں چلتی رہتی ہیں یہی وہ چیزیں ہے جو ذرائع ابلاغ کی رونق بنتی ہیں اور عوام کیلئے کچھ وقت گزاری کا سامان بنتی ہیں۔ لیکن حالات و واقعات اور ملکی و قومی سالمیت کے مسئلے پر سب ایک ہوجاتے ہیں اور بحران کو مل جل کر شکست دیتے ہیں۔ بھلا کوئی ایسے بدترین حالات میں اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود کو چھوڑ کر، حکومت وقت کا ہاتھ بٹانے کی بجائے، عوام کا حوصلہ بڑھانے کی بجائے عوام کویہ بتا کر کہ حکومت سے کچھ نہیں ہورہا ذہنی اذیت کا شکار کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ مضمون کا اختتام کی جانب گامزن تھا کہ ذرائع ابلاغ کے توسط سے ایک دل دہلانے والا پیغام موصول ہواہے کہ جس میں یہ لکھا ہے کہ شامی بچے نے مرتے وقت یاد ہے کیا کہا تھا کہ میں اوپر جا کر اللہ میاں کو سب بتادونگا، کہیں اس بچے نے واقعی ایسا تو نہیں کردیا۔ گردوپیش سے خوف آرہا ہے، کثرت سے توبہ تائب کیجئے۔

کروونا وائرس کے حوالے سے موصول ہونے والی اچھی اطلاعت بھی آپ لوگوں کے سامنے پیش کرتے چلیں، سب سے پہلی بات یہ ہے کہ چین نے ہنگامی بنیادوں پربنائے گئے ہسپتالوں کو مکمل طور پر بند کردیا ہے یعنی اب چین میں کوئی نیا مریض کروونا میں مبتلا نہیں پایا گیا، چین میں ہی ایک سو تین سالا خاتون جنہیں کروونا لاحق ہوا تھا روبصحت ہوگئی ہیں، کچھ ممالک نے کروونا کے مریضوں کا صحیح سمت میں علاج کر لیا ہے جن میں بھارت نے دعوی کیا ہے کہ مختلف ادویات کی آمیزش سے انہوں نے کروونا کے مریضوں کا علاج کر لیا ہے، ایپل کمپنی نے چین میں اپنے اسٹور کھول لئے ہیں، اٹلی میں زیادہ ہلاکتوں کی وجہ عمررسیدہ لوگوں کی اکثریت بتائی گئی ہے، اسرائیل نے دعوی کیا ہے کہ وہ کچھ دنوں میں کروونا کی ویکسین تیار کرلیگا اسی قسم کی کامیاب تحقیق کے انکشافات کینڈا کے سائنسدانوں نے بھی کئے ہیں، ایک اور امریکی محقق کا کہنا ہے کہ کروونا کا زور ٹوٹ چکا ہے۔ یہ تمام وہ موضوعات ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ناکہ ایسے حالات میں اپنی سیاسی بساط بچھائے رکھنے کی ہے۔

پاکستانی سیاست دانو ں سے خصوصی درخواست ہے کہ خدارا ملک میں انارکی پھیلانے سے بچیں ہم پہلے ہی بہت زخم خودرہ ہیں، وقت ہم سے تقاضہ کررہا ہے کہ ناصرف خلق خدا کی زندگیوں کو آسان بنانے میں اپنا کردار ادا کریں بلکہ اپنے رب کے حضور بھی توبہ کیلئے سربسجود ہوجائیں۔ ہمیں یقین ہے ہم نے دہشت گردی کیخلاف جیسے جنگ جیتی ہے اسی طرح سے ہم کروونا کو بھی بہت جلد شکست فاش دینگے بس عوام احتیاطی تدبیروں پر بھرپور طریقے سے کاربند ہوجائیں۔ اپنے آس پاس خیال رکھیں کہیں کوئی ایسے حالات میں بھوکا نا سوجائے۔ اللہ تعالی آسانیاں تقسیم کریں اور یہی اپنے لئے طلب کریں۔