1. ہوم
  2. غزل
  3. شائستہ مفتی
  4. سنتے ہیں اُس کی نیند ہے، راتیں چراغ کی

سنتے ہیں اُس کی نیند ہے، راتیں چراغ کی

سنتے ہیں اُس کی نیند ہے، راتیں چراغ کی
منظر بھی خواب ناک ہے، باتیں ایاغ کی

موسیٰ  کی طرح کون عصا لے کے آ گیا
جادو کمال ہے تو بصیرت دماغ کی

چڑھتے ہیں ہم بھی طُور پہ دیدارِ یار کو
دل حسرتوں سے پاک ہےِ، جھولی فراغ کی

دَورِ خزاں میں ذکر رہا باغ بان کا
شاید اسے بھی یاد ستاتی ہے باغ کی

ہم ڈھونڈنے چلے ہیں، مِلو گے ضرور تم
کامل یقیں کے ساتھ لگن ہے سراغ کی

یوں مسکرا کے مِلتے ہیں تنہائیوں سے ہم
اِتنی تو ہم نے رکّھی ہے حُرمت یہ داغ کی

بھولے سے آپ بھی کبھی آ جائیے حضور!
سُندیس کی صدائیں سنی ہیں جو زاغ کی

ممکن ہے آس پاس کا منظر بدل ہی جائے
تصویر دل میں اپنے بسائی ہے راغ کی