تنہا اکیلا گھر تھا وہ جنگل میں زاغ کا
اک گیت گونجتا تھا خموشی میں راغ کا
سنتے ہیں اسکی نیند تھی، راتیں اداس تھیں
اک خواب جل بجھا تھا دھوئیں میں چراغ کا
یوں دھیرے دھیرے شام سیاہی میں کھو گئی
تیرا نشان چاند تھا، ہالہ فراغ کا
اشکوں سے ہم نے رات کا آنچل بھگو دیا
اک حسنِ بے مثال تھا آئینہ باغ کا
درد و الم اداس نگا ہوں میں کھو گئے
احسان مان رکھا ہے ہم نے ایاغ کا
دل نے تمام عمر اسے نا خدا کہا
اک وہم تھا گمان تھا الجھے دماغ کا
ہم اک لکیر پیٹتے دلدل سے آ لگے
اب کون سا نشان ملے گا سراغ کا
بادِ شمال ہم سے مخاطب رہی سدا
اک واسطہ جو رکھا ہے ہم نے بلاغ کا
اسرارِ کائنات کھلے ہیں ترے بغیر
رستے میں تیری یاد کا دیپک ہے داغ کا