دلِ مضطرب تو بھی ہشیار رہنا
بھری انجمن میں نہ بے زار رہنا
نہیں شوق غالب ہمیں رت جگوں کا
مگر چاند چڑھتے ہی تیار رہنا
نہ جانے کہاں بھولی منزل ملے گی
دلِ بے خبر تو طلبگار رہنا
کریں کیا توقع ہم ان رہبروں سے
نہ بھایا جنھیں اپنا مختار رہنا
غمِ زندگی ہو یا ہو زندگی ہی
ترے دام میں اب گرفتار رہنا
کہانی کے کردار پھیلے ہوئے ہیں
ہر اک سمت میں ایک سنسار رہنا
بغاوت پہ اکسا رہی ہیں ہوائیں
مرے راستوں کو ہے دشوار رہنا
کبھی بھول پائے نہ بھولیں گے اب ہم
مرے یارِ من تیرا دلدار رہنا
نہ تم جان پاؤ گے اس ان کہی کو
بنا کر گھروندے کا مسمار رہنا