میرے ہاتھوں میں کچھ گلاب تو ہیں
جو نہ ممکن رہے وہ خواب تو ہیں
رنگ بکھرے ہیں چار سو میرے
ریگ زاروں میں کچھ سراب تو ہیں
تیری چاہت کی آرزو نہ سہــــی
ہم ترے سایۂ عتاب تو ہیں
لفظ ڈھلنے لگے ہیں معنی میں
زندگی سے ملے جواب تو ہیں
روشنی سی رہی درختوں پر
جنگلوں پر رہے شباب تو ہیں
رات کے منظرِ خموشی میں
چھڑ گئے نغمۂ رباب تو ہیں
اس زمانے کی کیا حقیقت ہے
ساحلِ وقت پر حباب تو ہیں