1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. خرم امتیاز/
  4. لتا منگیشکر اور میں

لتا منگیشکر اور میں

کچھ فنکار شاعری اور موسیقی کو سیکھ کر گاتے ہیں، کچھ فنکار اسے جان کر سمجھ اور پرکھ کر، مگر کچھ فنکار ایسے ہیں جنھوں نے جو بھی گایا اسے اپنا بنا کر گایا۔ اچھا گانے والے بیشمار ہیں، مگر تاثیر اور طاقتِ پرواز ہر آواز کے نصیب میں نہیں ہوتی۔ میں تھیوری آف رینڈم نیس پر یقین رکھتا ہوں، قسمت پر بھی اعتقاد ہے، لیکن ایک ہی چیز بیک وقت اور بارہا سبھی کے دل کو چھو لے تو یہ محض اتفاق نہیں معجزہ ہی کہلا سکتا ہے۔

لتا کی وفات کی خبر پر جو پہلا فقرہ ذہن میں گونجا وہ اسی کے گیت کے بول تھے کہ تم نجانے کس جہاں میں کھو گئے، ہم بھری دنیا میں تنہا ہو گئے۔ افسوس کا لفظ اکثر میرے جذبات کا احاطہ نہیں کرپاتا تو دن بھر چاہ کر بھی کچھ اظہار نہ کر سکا، کچھ بھی لکھنے لگتا تو اظہار تشنہ اور الفاظ بیحد حقیر معلوم پڑتے ہیں۔

موسیقی اور بالخصوص پرانے گیتوں کیساتھ میری انسیت کا ادراک رکھنے والے دوست احباب اور رشتے داروں نے باقاعدہ رابطہ کر کے مجھ سے یوں تعزیت کی، جیسے انھیں گمان ہو کہ میرا لتا جی کیساتھ کوئی غائبانہ تعلق ہو۔ جُرمِ الفت پہ ہمیں لوگ سزا دیتے ہیں۔ کیسے نادان ہیں شعلوں کو ہوا دیتے ہیں۔ ہاں تعلق تو ہے۔ مگر یہ دنیا اور زندگی بہت عجب ہے۔ دو دن کیلئے مہمان یہاں معلوم نہیں منزل ہے کہاں۔

یقین نہیں ہوتا کہ وہ آواز واقعی چلی گئی جو ہمارے غم کو اپنا غم بنا کر قرار پانے کی بات کرتی تھی، کہ مجھے اپنی سبھی آہیں سبھی درد و الم دیدو اگر مجھ سے محبت ہے۔ جو کہتی تھی کہ ہم پیار میں جلنے والوں کو چین کہاں، آرام کہاں، کیا اسے چین مل گیا؟ اسکی دھڑکن رُک گئی جو کہتی تھی "دل کی اے دھڑکن ٹھہر جا مل گئی منزل مجھے"۔ کیا واقعی اسے منزل مل گئی؟ رہیں نہ رہیں ہم، مہکا کریں گے بن کے کلی، بن کے صبا باغِ وفا میں، ہاں وہ ابھی بھی یہیں ہے۔ میں سُن سکتا ہوں اسے۔

مشکل ہے بہت مشکل چاہت کا بھلا دینا، اس آواز کیساتھ چاہت اور آشنائی کب ہوئی اور کیسے زندگی کا اٹوٹ حصہ بن گئی، شاید ہوش سنبھالنے سے بھی پہلے ریڈیو یا ٹیپ ریکارڈر کی معرفت۔ یہ اسکے عہد کا وہ دور تھا جب بزرگ اسکے گائے "دل اپنا اور پریت پرائی" اور "گزرا ہوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ" پر سر دھنتے اور نوجوان اسی کی آواز میں گوری کلائیوں میں ہری ہری چوڑیاں پہنی اپنی محبوبہ کو کبوتر کے ہاتھ سندیسے بھجوانے کا تصور کیا کرتے تھے۔ شادیوں میں ڈھولک پر "دیدی تیرا دیور دیوانہ" اور "مہندی لگا کے رکھنا" بجا کرتا۔

گلی محلے، ریڈیو، ٹی وی اور فلم الغرض ہر جگہ یہ آواز لازم و ملزوم تھی۔ چچا مرحوم پرانے گیتوں اور فلموں کے رسیا تھے، ان کی بدولت ہم بچوں کو بھی ورثے میں یہ سوغات حاصل ہوئی۔ آپ یوں فاصلوں سے گزرتے رہے، دل سے قدموں کی آواز آتی رہی۔ کچھ دل نے کہا! کچھ دل نے سنا؟ کچھ بھی نہیں! ایسے بھی باتیں ہوتی ہیں۔ میرے لیے یہ سب کچھ نیا اور دلچسپ تھا۔

مفت میں مل جانے والی اس لگژری کو ہمیشہ فار گرانٹڈ لیا لیکن لتا کی آواز بیک وقت تنہائیوں اور محفلوں میں زادِ راہ بن گئی، بظاہر وہ آواز سامع کو بہلاتی۔ مگر وہ ہمارے ناتجربہ کاری کے دور میں شعور کا خزانہ تھی۔ وہ ایک عجیب داستان سنانا شروع کرتی جو نجانے کہاں سے شروع اور کہاں ختم ہوتی تھی مگر سننے والے کو انجان منزلوں کی سمجھ آنے لگتی۔

وہ اپنے دلِ ناداں سے محوِ گفتگو ہوتی اور سننے والے کو آرزو، جستجو، دشت و صحرا میں بھٹکنا، اپنے ہی دریا میں موج پیاسی ہونا، اپنا سایہ رُوبرو ہونا، مصیبت، قیامت، ارماں اور چار سو پھیلی دھڑکن کی سمجھ آنا شروع ہو جاتی، سر راہ چلتے چلتے اسکی باتیں فسانوں کا روپ دھار لیتیں۔ شبِ انتظار کے چراغ اسکے ساتھ جلتے جلتے بجھ جاتے۔

وہ اپنے صنم کو خط لکھنے بیٹھتی اور سننے والے کی چشمِ تصور میں دِل کی گلی اور شہرِ وفا کا نقشہ کھنچنے لگتا، وہ طلسماتی انداز میں غیروں پہ کرم اور اپنوں پہ ستم کا شکوہ کرتی ہے اور سننے والے کو کرم، ستم، ظلم، بھرم، قسم، بےدردی، منظورِ نظر، اقرار، وار، تھرکتے شانوں اور بے موت مرنے کا ادراک ہو جاتا ہے۔

وہ پروانے کو کہیں دیپ اور کہیں دل جلنے کی کہانی سناتی۔ قسمیں وعدے نبھانے کی، جنم جنم ملتے رہنے کی باتیں، کبھی خاموشیوں کے گنگنانے، تنہائیوں کے مسکرانے، ہوا کی سرگوشیوں کی باتیں۔ دور تک نگاہ میں گُل کھلاتے خواب دیکھنے کی باتیں۔ خُود کو دھواں بنا کر فِضا میں اُڑانے کی باتیں۔

میرے لیے یہ سب بیحد منفرد تھا۔ وہ آواز میرے لڑکپن اور نوجوانی کی یاد بن گئی اور مرتے دم تک رہے گی، اب سوچوں تو اس آواز سے ادا ہوئے لفظوں سے کیسی کیسی تصویریں بن جایا کرتی تھیں۔ دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن، جب جاڑوں کی نرم دھوپ اور آنگن میں لیٹ کر آنکھوں پر کھینچ کر تیرے دامن کے سائے کو، اوندھے پڑے رہیں، کبھی کروٹ لیے ہوئے۔

یاں گرمیوں کی رات جو پروائیاں چلیں، ٹھنڈی سفید چادروں پہ جاگیں دیر تک، تاروں کو دیکھتے رہیں چھت پر پڑے ہوئے۔ برفیلی سردیوں میں کسی بھی پہاڑ پر، وادی میں گونجتی ہوئی خاموشیاں سنیں، آنکھوں میں بھیگے بھیگے سے لمحے لیے ہوئے۔ ہر کسی کو گمان ہوتا تھا کہ یہ آواز صرف اُسی کے لیے ہے۔ تُو اب سے پہلے ستاروں میں بس رہی تھی کہیں، تجھے زمیں پر بلایا گیا ہے میرے لیے، کبھی وہ آواز لوری بن کر تھپتھپاتی۔ آج کل میں ڈھل گیا، دن ہوا تمام، تُو بھی سوجا سو گئی رنگ بھری شام۔ آ جا ری آ نندیا تُو آ۔

بہت رات بیتی چلو میں سلا دُوں، پَوّن چھیڑے سرگم میں لوری سنا دوں، دھیرے سے آجاری اکھین میں نندیا۔ لُکا چھپی بہت ہوئی سامنے آ جا ناں۔ کبھی سارے جہاں کی اُداسیاں اس آواز میں سمٹ آتیں۔ کتنی اکیلی کتنی تنہا سی لگتی۔ اسقدر بھی کوئی کسی کا دیوانہ نہ بنے، تیرِ نظر کا نشانہ نہ بنے۔ لیکن یہ میری زندگی اک پاگل ہوا، آج اِدھر کل اُدھر میں کسی کی نہیں۔

لیجنڈ کا لفظ اس ایک آواز کیلئے بیحد چھوٹا ہے، سچ پوچھیے تو پچھلی تین نسلوں کو خود اندازہ نہیں کہ اردو کے ڈھیروں الفاظ کا درست تلفظ لاشعوری طور پرہمیں ان گیتوں سے سیکھنے کو ملا ہے، زمانے کے کتنے ہی جذبات، احساسات اور سچویشنز کا شعور ہمیں اسکے گیتوں میں برتے گئے الفاظ کے بھرپور اور عین تاثرات کی ادائیگی سے حاصل ہوا۔ جو شاید کسی اور کے کہے سے دل میں یُوں ہرگز نہ اترتا۔ کوئی ایک ایکسپریشن ہو تو بتاؤں۔

جو اسکی آواز میں سن لے کہ "دیپک بغیر کیسے پروانے جل رہے ہیں کوئی نہیں چلاتا اور تیر چل رہے ہیں۔ تڑپے گا کوئی کب تک بے آس بے سہارے" اسے انتظار کی کیفیت و ماہئیت سمجھ کیوں نہ آئیگی؟ "ریت کی ہیں دیواریں جو بھی چاہے گرا دے، ڈوبی جب دل کی نیّا سامنے تھے کنارے" سن کر کیا مایوسی کی تصویر نہیں بن جاتی؟

"دو پل کے جیون سے اک عمر چرانی ہے، زندگی اور کچھ بھی نہیں تیری میری کہانی ہے" سن کر مایوسی رفوچکر ہو جاتی، اور اسکی جگہ ایک ناسٹلجیاکا جذبہ لے لیتا ہے، "مگر کیا کریں اپنی راہیں جدا ہیں " سن کرسمجھ آگئی گویا دو میں سے کسی ایک فریق کے قصوروار ہوئے بنا بھی راہیں جدا ہو سکتی ہیں، "دور سے دل کی بُجھتی رہے پیاس، ٹوٹنے والے دل ہوتے ہیں کچھ خاص" سن کر لگتا ہے وہ خاص دل میرا ہی تو ہے اور اکھیوں کا آس پاس رہنا کیوں ضروری ہے۔

"تیری دو ٹکیاں دی نوکری میرا لاکھوں کا ساون جائے رے" سمجھا دیتا ہے کہ اک فطری جبلت کی تسکین نہ ہو پائے تو ساون لاکھوں کا اور چنگی بھلی نوکری دو ٹکے کی ہو سکتی ہے، میں تم میں سما جاؤں، تم مجھ میں سما جاؤ- سچ کہئے کیا یہ سن کر چشمِ تصور میں دو وجود سرائیت کرتے دکھائی نہیں دیتے؟

"کیا کہنا ہے، کیا سننا ہے، مجھکو پتا ہے، تمکو پتا ہے، سمے کا بندھن تھم سا گیا ہے" سن کر وقت جہاں تھما ہوا محسوس ہوتا ہے وہیں سبھی الفاظ اور اظہار بے معنی سے لگنے لگتے ہیں، "مسکراؤں کبھی تو لگتا ہے جیسے ہونٹوں پہ قرض رکھا ہے" سن کر یقین جانئیے اپنے ہی ماضیءِقریب کی سبھی خوشیاں مجبور و مقروض سی لگنے لگتی ہیں۔

وہ زندگی کو پیار کا گیت کہتی ہے تو سچ لگتا ہے، وہ کہے کہ اٹھائے جا انکے ستم اور جئے جا، یونہی مسکرائے جا، آنسو پئے جا - تو سن کر لگتا ہے کہ پیار بس تکلیف سہنے کا نام ہے۔"پیاس بھڑکی ہے سرِشام سے جلتا ہے بدن"- کیا پیار جلنے کا نام ہے؟

"اب تو ہے تم سے ہر خوشی اپنی"۔ سننے والے کیلئے پیار کو وارفتگی میں بدل ڈالتا ہے، مگر پھر وہ تان لگاتی ہے کہ "پردہ نہیں جب کوئی خدا سے بندوں سے پردہ کرنا کیا" تو پیار سے بے خوف اور نڈر شے کوئی اور نہیں لگتی، وہ حسرتوں کے داغ محبت میں دھونے کا یوں ذکر کرتی ہے کہ خود دل سے دل کی بات کہہ کر رو اٹھنے کو جی کرتا ہے۔

جب وہ کہتی ہیں کہ میری آواز ہی پہچان ہے گر یاد رہے، سن کر یقین ہو جاتا ہے کہ نام اور چہرہ بدل جائے گا مگر یہ آواز واقعی کبھی نہیں بھلائی جا سکتی، اُن آنکھوں کی مہکتی خوشبو کیسے دیکھی جا سکتی ہے؟ صنم سے مدھر چاندنی میں ملنے کا سماں کیا ہوتا ہے؟ رات بھیگی بھیگی اور مست فضاوں میں پیارے سے چاند کا دھیرے دھیرے اٹھنے کا منظر کیسا ہوتا ہے؟ سِلّی سِلّی برہا کی رات کا جلنا کیا ہوتا ہے؟ نیناں رم جھم کیسے برس سکتے؟ یہ عجوبہ ہے، کہ وہ کونسا کام ہے جو یہ آواز نہیں کر سکتی؟

کبھی وہ جل بن مچھلی بن جاتی، کبھی ملہار گاتی کوئل، کبھی دشمن سپیرے کی بین پر رقص کرتی ہوئی ناگن۔ وہ محبوب سے ملنے کو پنکھ لگا کے اُڑ کے آ سکتی ہے۔ ڈفلی کی تھاپ پر ناچ سکتی، کبھی ہاتھوں میں نو نو چوڑیاں پہن کر ساجن کو اپنی مجبوری سمجھاتی دوشیزہ، وہ کسی اور کے در پہ آئی اپنے ہی راجہ کی بارات پر ناچ سکتی ہے۔ بندیا چمکا کر، چوڑی کھنکا کر وہ بھولی داستان سنا کر نظر کے سامنے گھٹا کو برسا سکتی ہے۔ ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے رُت جواں بنا سکتی ہے۔

محبوب کے لیے پلکوں کی جھالر بُن سکتی ہے، جی میں آئے تومحبوب کے دامن میں سر جھکا کے روتی رہے، روتی رہے۔ چاہے تو دل کو دل کے اتنا قریب لے آئے کہ دھڑکنیں دھڑکنوں میں مل جائیں۔ صنم کی بانہوں میں آکر جسکے قدموں تلے زمانہ ہے۔ ہر آنسو کو پیے، ہونٹوں کو سیے دل میں مگر جلتے رہے چاہت کے دِیے۔ کل کے افسانے نہ چھیڑ کر صرف اِس ایک رات کی باتیں کرنے والی۔ پیار میں جینے کی تمنا اور مرنے کا ارادہ رکھنے والی۔ کوئی میری آنکھوں سے دیکھے تو سمجھے کہ تم میرے کیا ہو۔ مگر دنیا کرے سوال تو ہم کیا جواب دیں۔

"یہ کہاں آگئے ہم" کی صدا سامع کو اک انجان وادیوں کےسفر پر گامزن کردیتی ہے اور اگلے ہی لمحے، یونہی ساتھ چلتے چلتے سن کر گویا کسی ہمسفر کا ساتھ بھی مہیا ہو جائے۔ پیار سے پکار لو جہاں ہو تم - تُو جدھر کا رخ کرے گا میرا سایہ ساتھ ہو گا۔ لگتا ہے وہ جا کر بھی کہیں آس پاس ہی رہے گی۔

ہم نے کچھ باغیانہ شعور پا کر اسے پرکھنے، موازنے، نیچا دکھلانے، اسکا عکس دھندلانے کی بیحد کوشش کی مگر ہر محاذ پر خود کو ناکام پایا۔ وہ ایک نشہ ہے جس کی ہر کچھ وقت بعد روح کو ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ وہ چپ رہیں تو میرے دل کے داغ جلتے ہیں، جو بات کر لیں تو بجھتے چراغ جلتے ہیں۔ جیسے وہ پکارتی ہے کہ وادیاں میرا دامن راستے میری بانہیں، جاؤ میرے سوا تم کہاں جاؤ گے۔ کیا ان الفاظ کی گونج سے چھٹکارہ ممکن ہے؟

جب بھی وہ کہتی ہے آؤ تمہیں چاند پہ لیجائیں پیار بھرے سپنے دکھائیں - سن کر ہم بھی محوِ سفر ہو لیتے ہیں۔ چلو دلدار چلو چاند کے پار چلو کہ موسم ہے عاشقانہ۔ ایسا سماں نہ ہوتا، کچھ بھی یہاں نہ ہوتا، میرے ہمراہی جو تم نہ ہوتے۔

اسکی عجب فرمائشیں ہیں۔ تھوڑی سی زمیں، تھوڑا آسماں، تنکوں کا بس اک آشیاں۔ خاموش سا افسانہ پانی سے لکھا ہوتا، نہ تم نے کہا ہوتا نہ ہم نے سنا ہوتا۔ دوریاں سب مٹا دو، من میں لگی جو اگن وہ سجن تم بجھا دو- الفت میں زمانے کی ہر رسم کو ٹھکراؤ، پھر پاس میرے آؤ۔ وعدہ نہ توڑ۔ تجھ سے ناراض نہیں زندگی! تمہاری نظر کیوں خفا ہو گئی، نجانے ایک دل میں اتنے بہت سے جذبے کیسے سمٹ سکتے ہیں جو روح بن کر سماعتوں میں گھل جائیں۔

کسی راہ میں کسی موڑ پر

تیری راہوں میں کھڑے ہیں دل تھام کے، ہم ہیں دیوانے تیرے نام کے، ہزار راہیں مڑ کر دیکھنا، کہیں سے کوئی صدا نہ آئے تب بھی بڑی وفا سے کسی کی تھوڑی سی بیوفائی نبھائے چلے جانا۔

اِس موڑ سے جاتے ہیں کچھ سست قدم رستے، کچھ تیز قدم راہیں، میں اگر بچھڑ بھی جاؤں کبھی میرا غم نہ کرنا، میرا پیار یاد کر کے کبھی آنکھ نم نہ کرنا، تو جو مڑ کے دیکھ لے گا میرا سایہ ساتھ ہو گا۔

جو نہ بن سکے میں وہ بات ہوں، جو نہ ختم ہو میں وہ رات ہوں، کہ ہے اسی میں پیار کی آبرو، تیرا جانا دل کے ارمانوں کا لٹ جانا۔

لتا جی آپکو کیسے بھلایا جا سکتا ہے؟

ان رسموں کو ان قسموں کو، ان رشتے ناطوں کو میں نہ بھولوں گا، سمجھے گا کون یہاں درد بھرے دل کی زباں، جائیں تو جائیں کہاں، رینا بیتی جائے نندیا نہ آئے۔ تمھیں یاد کرتے کرتے جائے گی رین ساری، تم لے گئےہو اپنے سنگ نیند بھی ہماری۔

رُلا کے گیا سپنا میرا۔

وہی ہے غمِ دل وہی ہے چندا تارے، وہی ہم بے سہارے، چاند پھر نکلا مگر تم نہ آئے جلا پھر میرا دل کروں کیا میں ہائے!

کھلتے ہیں گُل یہاں، کھل کے بچھڑنے کو

شاید پھر اِس جنم میں ملاقات ہو نہ ہو

خوشیاں تھیں چار دن کی، آنسو ہیں عمر بھر کے

تنہائیوں میں اکثر روئیں گے یاد کر کے

وہ وقت جو کہ ہم نے اک ساتھ ہے گزارا

حافظ خدا تمہارا