1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. خرم امتیاز/
  4. نمازِ جمعہ اِن چائنہ

نمازِ جمعہ اِن چائنہ

چین میں قیام کے دوران ہمارا پہلا جمعہ کچھ آفیشل میٹنگز کی نذر ہو گیا، البتہ اگلا جمعہ اپنے چینی کولیگز کی مدد سے ہانگژو شہر کی سب سے بڑی مسجد (جسے "ہانگژو گرینڈ مسجد" کہا جاتا ہے) میں ادا کرنے کا پلان بنایا گیا۔ ہم نماز کے وقت سے کافی پہلے مسجد پہنچ گئے۔
یہ مسجد فن تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ چار منزلہ مسجد کا گراؤنڈ فلور جدید نوعیت کے صاف ستھرے وضو خانے، بیشمار غسل خانوں، لائبریری اور انتظار گاہوں پر مشتمل تھا۔ ہم زندگی میں پہلی بار ایسی مسجد دیکھ رہے تھے جس میں مردوں کیلئے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی سہولت بھی موجود تھی اور دیواروں پر بچوں کی تصویرں کیساتھ سبق آموز تحریریں نقش تھیں۔
پہلی منزل پر خواتین کے نماز ادا کرنے کا ہال موجود تھا۔ کچھ بزرگ خواتین نے ہم سے چائنیز میں بات کرنے کی کوشش کی اور پاکستان کے نام سے واقفیت کا اظہار کرتے ہوئے سر پر پیار دیا۔ ایک بات یہ نوٹس کی کہ یہاں خواتین پردے کے بنیادی احکامات کی پابندی کرنے کے بعد خود کو مردوں سے چھپانے کی کوشش کرتی دکھائی نہیں دیتیں، نہ ہی مردوں کیساتھ کمیونیکیشن میں جھجھک محسوس کرتی ہیں۔
دوسری منزل پر مردوں کی نماز کیلئے ایک وسیع و عریض ہال موجود تھا۔ اسی منزل پر مسجد انتظامیہ، آڈیو کنٹرول روم، اکاؤنٹس آفس اور مذہبی امور سے متعلق کوئی دفتر بھی موجود تھا۔ تیسری منزل بھی دراصل اسی مردوں کے ہال کا بالائی حصہ تھا جہاں مزید نمازیوں کیلئے صفیں موجود تھیں۔
ٹاپ فلور یعنی چوتھی منزل پر اسلامک کلچرل نمائش کے انعقاد کیلئے ایک بڑا ہال مختص کیا گیا تھا، جس کے اردگرد تمام جگہ کو خوبصورت پودوں سے آراستہ کیا گیا تھا۔ مسجد میں جابجا عربی آیات کی خطاطی کے نمونے ایک عجب سماں باندھ رہے تھے۔
اسی دوران ایک دیوار کے پاس کھڑے چائنیز شخص کی قران کی خوبصورت تلاوت کرنے کے منظر نے دل گرما دیا۔
مسجد ہماری توقعات سے کہیں زیادہ بڑی اور خوبصورت تھی، البتہ ابھی تک ہم یقین کرنے سے قاصر تھے کہ کیا واقعی اس شہر میں مسلمان اسقدر تعداد میں موجود ہیں جن کیلئے اتنی بڑی مسجد بنا دی گئی ہے۔ دوسرا خیال یہ تھا کہ یقینا دوسرے مسلم ممالک سے چین آ کر کام کرنے والوں کی تعداد لوکل چائنیز مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہو گی۔ خیر ہمارے دونوں خیالات غلط ثابت ہوئے کیونکہ خطبہ شروع ہونے تک مسجد کا ہال کھچا کھچ بھر چکا تھا اور مختلف قومیتوں کے افراد کی موجودگی کے باوجود زیادہ بڑی تعداد چائنیز مسلمانوں ہی کی تھی، جس سے اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ بلاشبہ ہزاروں مسلم فیملیاں اس شہر میں بستی ہیں۔
امام صاحب کا چائنیز زبان میں جاری تھا جسے ہم سمجھنے سے قاصر تھے مگر ظاہر ہے یہ ہمارے لیے نیا اور منفرد تجربہ تھا، البتہ عربی آیات اور پیغمبروں کے ناموں سے اندازا ہو رہا تھا کہ کم و بیش وہی روایتی باتیں ہو رہی ہیں مثلا موسی کلیم اللہ کا اللہ کیساتھ مکالمہ، حضرت عیسی کے بیماروں کو شفایاب کرنے کے معجزات، پیغمبرِاسلام کے ارشادات اور اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ترغیبات۔ امام صاحب کے بیان کے دوران بہت سے نمازی بے دھڑک موبائل فونوں پر وی چیٹ (چین میں واٹس ایپ کا متبادل) اور سوشل میڈیا ایپلیکیشن کا استعمال کرتے پائے گئے۔ جس سے تاثر ابھرا کہ شاید یہاں کے مولوی اپنی عوام کو مذہبی ڈر اور خوف میں جکڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکے
مسلمان چائنہ میں اقلیت ہیں، چین کی آبادی کا تقریبا ڈیڑھ فیصد (یعنی تقریبا 2 کڑوڑ سے زیادہ لوگ) مسلمان ہیں، لیکن ان کی اکثریت چین کے مغربی علاقوں یعنی قازکستان، تاجکستان، پاکستان سے ملحقہ سرحدی صوبوں چنجیانگ، ننگچیا، چنگائے اور گانسو صوبوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔