1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. خرم امتیاز/
  4. شعیب منصور اور ”خدا کے لئے“

شعیب منصور اور ”خدا کے لئے“

شعیب منصور نے اَسی کی دہائی میں پی ٹی وی سے اپنے کریئر کا آغاز کرتے ہوئے سکرپٹ رائیٹر، ہدایتکار و پروڈیوسر کے طور پر دو عشروں تک بہترین کام کیا۔ جن میں اَن کہی، انارکلی، سنہرے دن اور الفا بریوو چارلی جیسے خوبصورت ڈراموں کے ساتھ ساتھ "ففٹی ففٹی" جیسے طنزومزاح کے خاکوں پر مبنی یادگار پروگرام بھی شامل ہیں۔ پھر وائٹل سائنز کے ساتھ انکی "گیتار" ویڈیو سیریز نے وائٹل سائنز کو راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔ "دل دل پاکستان" قومی ترانے سے بھی زیادہ مقبول ملی نغمہ بنا، ملک میں موسیقی کا ٹرینڈ تبدیل ہوا اور اسی بنیاد کو استعمال کرتے ہوئے آج بھی اس خطے کے دوسرے ممالک میں ہمارے پاپ گلوکاروں کا کوئی مقابل نہیں۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ اتنا تخلیقی ذہن رکھنے والا شخص جو مثبت کام کر رہا تھا اس نے اپناوہ کام چھوڑ کیوں دیا؟ اس نے سب گزشتہ روایتی کام ترک کر کے فلم سازی کو کیوں چنا اور اپنی جوانی میں لطیف اور مثبت جذبات کو ابھارنے والے شعیب منصور نے اپنی عمر کے آخری حصے میں اب تک جو فلمیں بنائی ہیں ان کے موضوعات اسکی گزشتہ کاوشوں کے برعکس اسقدر تلخ اور معاشرتی روایات سے بغاوت کی عکاسی کرتے کیوں دکھائی دیتے ہیں؟

فلم عہدِ حاضر کی ایک حقیقت ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر سے ذہین ترین لوگ اس شعبے سے وابستہ ہیں۔ دورِ حاضر میں فلم ایک ایسا ٹُول ہے جس کیساتھ ناصرف ناظرین کی ذہن سازی ممکن ہے بلکہ دنیا بھر میں نئے سوشل ٹرینڈز اور سوچ متعارف کرانے میں بھی فلمیں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ فلم عموما ایک پرائیویٹ پروڈکشن ہوتی ہے۔ اگر کوئی اپنے وسائل، محنت، مہارت اور تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے فلم بنا کر اپنی کوئی خاص سوچ دنیا کے سامنے پیش کر سکتا ہے تو یہی کام اسکی مخالف سوچ رکھنے والے بھی کر سکتے ہیں۔ اسی مقابلے بازی کے رجحان ہی سے کسی شعبے میں مختلف مکاتبِ فکر کے مابین ایک توازن برقرار رہ سکتا ہے۔ اور لوگوں کو مختلف ٹیلنٹ اور افکار کا موازنہ کرنے، سیکھنے اور کسی موضوع پر اپنی رائے ہموار کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ہمیں دنیا بھر کے فلمسازوں میں اس مقابلے کا رجحان دکھائی دیتا ہے۔ ۔ ۔

اگر شعیب منصور اپنی فلم یا آرٹ کے ذریعے کسی سوچ کا پرچار کر سکتا ہے تواس سوچ کے مخالفین کا ورژن بھی آرٹ (مثلا فلم ) ہی کی صورت سامنے آنا چاہئے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا ہو نہیں رہا، کیونکہ مختلف خود ساختہ پابندیوں کے سبب ہر مکتبہءِ فکر اپنا موقف دنیا کے سامنے پیش کرنے کیلئے آرٹ اور تفریح کے فورمز کو ذریعہ اظہار بنانے سے قاصر ہے۔ جبکہ جدید حقیقت یہ ہے کہ میڈیائی دور کا پاکستانی سیکھنے کے لئے اب کسی ناں کسی طرح میڈیا ہی کا مرہون منت بنتا چلا جا رہا ہے۔

واپس شعیب منصور کی طرف آتے ہیں۔ شعیب منصور اور جنید جمشید ایک طرح سے بیسٹ فرینڈز تھے۔ وائٹل سائنز اور جنید جمشید کو پروموٹ اور مشہور کرنے کا سہرا بلاشبہ شعیب منصور کے سر جاتا ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ جنید کے مذہبی رجحانات، بدلتی سوچ، نئے حلیے اور پھر موسیقی سے کنارہ کشی نے شعیب کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ عین ممکن ہے کہ اس نے اپنے تئیں جنید کو اس کنارہ کشی سے روکنے کی کوشش بھی کی ہو۔ ۔ مگر وہ دل ہی دل میں جنید جمشید کے موسیقی چھوڑنےکوپاکستان میں ریڈیکل مذہبی سوچ کی فتح اور اس واقعے کو ایک سانحہ خیال کرتا ہے۔ (پڑھنے والے اس سوچ سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن ہمیں شعیب کو "سوچ کی آزادی" دینا ہو گی)۔

عالم اسلام بالخصوص پاکستان میں گزشتہ دہائیوں میں مذہب، مسلک اور فتاوی کو بطور سیاسی و عسکری ٹُول کے استعمال کیے جانے اور اس کے نتیجے میں ملک کی بگڑتی صورتحال سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ ۔ ۔ پھر طالبان، القاعدہ، داعش کی صورت دہشت گردی کے انٹرنیشنل واقعات میں مذہبی رجحان رکھنے والے شدت پسندوں کی موجودگی اور انٹرنیشنل سطح پر مسلمانوں کے خراب ہوتے تاثر نے شعیب منصور جیسے تخلیقی دماغوں کو اور بھی زیادہ متاثر کیا۔

فلم "خدا کے لئے" میں شعیب منصور نے ایسے ہی کئی موضوعات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جو اسکی سوچ کے مطابق ملک میں ایڈریس ہونا اور عام لوگوں تک پہنچنا وقت کی اشد ضرورت تھے۔

اس میں اختلافی نکات کی موجودگی کے باوجود میں اس فلم کو یکسر فراموش نہیں کر سکتا۔ اس میں کچھ بہت اچھے سوال بھی اٹھائے گئے۔ کچھ آگاہی بھی دی گئی مثلا طالبان کو پہلی بار کھل کر کسی فورم پر بے نقاب کیا گیا، جبکہ اس سے قبل ہماری عبادت گاہوں میں جھولیاں پھیلا کر طالبان کیلئے دعائیں کی جاتی تھیں، اور بشمول میرے عوام الناس مجموعی طور پر مجاہدین، لشکر طیبہ، جھنگوی، فلاں فلاں گڈ اور بیڈ طالبان اور فلاں فلاں نیٹ ورک سے مکمل طور پر لاعلم تھی۔ اور بادی النظر میں ان سب کو مجاہد اور اسلام کا عَلم بلند کرنے والا خیال کرتی تھی۔ اس فلم کے بعد کچھ لوگوں نے کھل کر طالبان کو غلط کہنا شروع کیا۔ رہی سہی کسر وادئ سوات میں طالبان کے قبضے نے پوری کر دی۔ وقت کیساتھ ساتھ ریاست کو بھی واضح طور پر طالبان کے خلاف لائن لینا پڑی۔ طالبان پاکستان میں کن جگہوں سے اور کیسے پنپ رہے تھے، کسطرح نوجوانوں کو کھیل اور فنون لطیفہ سے دور کر کے انکے کچے ذہنوں کی برین واشنگ کر کے انتہا پسندی کی جانب راغب کیا جا رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ شعیب کی یہ فلم اسکے واضح اشارے دیتی ہے جو بعد میں بہت حد تک درست بھی ثابت ہوئے۔ کیا اس بارے شعیب کی ریسرچ اور پیشکش کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟

فلم میں شان (جو امریکا میں زیر تعلیم تھا ) کو نائن الیون کے واقعے کے بعد محض اسلامی بیک گراؤنڈ ہونے کے باعث جیل، تشدد اور بدترین ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا۔ فلم نے بتایا کہ دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں اور مسلمانوں کو دہشت گردی کی اس لہر سے کیا نئے مسائل درپیش ہیں (یہ حقیقت ہر گزرتے دن کیساتھ مزید عیاں ہو رہی ہے)۔

فلم میں کئی معاشرتی فرسودہ روایات اور منافقانہ رویوں پر اعتراض اٹھایا گیا۔ جن سے میں ذاتی طور پر متفق ہوں۔ مثلا پاکستانی مرد جو مغرب میں سکونت اختیار کرتے ہیں، خود وہاں جنسی رنگ رلیاں بھی مناتے ہیں اور ہر غیر اسلامی کام کر لیتے ہیں، وہاں اپنے بچوں کو مشرقی ماحول اور دین کی تعلیم دینے کا وقت نہیں نکال پاتے اور انھیں ازخود مغربی معاشرت میں پروان چڑھنے دیتے ہیں، مگر بچوں کے شادی کی عمر کو پہنچنے پر غیرت کے احساس کیساتھ بچوں کو انکی پروان چڑھی مغربی سوچ کے منافی زندگی گزارنے پر مجبور کرتے ہیں۔

فلم میں موسیقی کے حق میں دلائل بھی دیے گئے۔ جو مجھے ذاتی طور پر متاثر کن نہیں لگے، اور میرا نہیں خیال کہ موسیقی سے لطف اندوز ہونے کا فیصلہ کرنے کے لئے کسی کو اِن دلائل کی کوئی ضرورت ہو گی، مگر میں ان دلائل کے پس پردہ شعیب منصور اور جنید جمشید والا سارا بیک گراؤنڈ دیکھ اور سمجھ سکتا ہوں۔

میں ذاتی طور پر موسیقی کو ایک یونیورسل سچائی سمجھتا ہوں، یونیورسل سچائی کو ثابت نہیں کرنا پڑتا، یہ خود بخود اپنا آپ منوا لیتی ہے۔ یہ پھیلتی نہیں، چھا جاتی ہے۔ ۔ ۔ اسلئے موسیقی کے حق میں میرے پاس سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ بغیر عمر و جنس کی تفریق کے دنیا میں ہر مذہب، مسلک اور عقیدے کا حامل شخص موسیقی سنتا اور انجوائے کرتا ہے۔ خواہ وہ کوئی سریلی نعت ہو، قوالی ہو، دھمال ہو، غزل ہو یا کوئی گیت۔ موسیقی ایک اَن دیکھی ترتیب کا نام ہے، کوئی لاکھ انکار کرے مگر یہ ترتیب ہر شخص کی زندگی کا حصہ ہے۔ موسیقی قدرت میں شامل ہے، اگر کوئی ساز اور آواز دستیاب نہیں تب بھی خاموش ندی کے پانی، آبشار کے شور، پتوں کی سرسراہٹ اور پرندوں کی آوازوں تک میں پنہاں موسیقی محسوس کی جا سکتی ہے۔ اذان تک میں سُروں کے اتار چڑھاؤ کا خیال رکھا جاتا ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ کسی مذہبی کاوش میں اچھے سُر لگانے والا گلوکار کی بجائےخوش الحان کہلاتا ہے۔