1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. ایک نہیں دو پاکستان

ایک نہیں دو پاکستان

فرمایا "قوم مایوس ہے"۔ کسی اور نے کہیں اور فرمایا "قوم آج یوم تشکر منائے گی"۔ یہ دو بیانیے ہیں جن میں ایک مشرق تو دوسرا مغرب کی جانب کھڑا ہے۔ دونوں بیانیے پچ ایسے کیے جاتے ہیں کہ یہی آخری سچ ہو۔

حقیقت ذرا الگ ہے۔

ریاست میں ہر فریق کی یا تو اچھی خاصی فین بیس ہے یا پھر ہر فریق سے نفرت کرنے والی عوام۔ چلیے ہم نفرت سے ایک درجہ نرم بات کر لیتے ہیں، فریقین کو ناپسند کرنے والے بھی اپنا وجود رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ مثلاً کچھ لوگوں کو فضل الرحمان کی شکل نہیں پسند۔ کچھ احباب کو عمران خان کا چہرہ قبض آلود لگتا ہے۔ کچھ ہاؤس آف شریف و زرداری کو کرپٹ مانتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ میرا اور آپ کا اجماع البتہ اس بات پر ہے کہ سب ایک جیسا نہیں سوچتے۔ دوسری بات، سب فقط سیاہ و سفید میں بھی نہیں سوچتے۔ معاشرے کی سوچ بائنری نہیں۔ کسی کو بلاول میں charisma نظر آتا ہے تو کسی کو عمران میں، کوئی فضل الرحمان کا عاشق۔ پھر سے عرض ہے، سب ایک سا نہیں سوچتے۔

ایسے میں کوئی ایک فریق اٹھ کر اعلان کرنا شروع کر دیتا ہے کہ فریق ثانی ہر شیطانی خصلت کا مالک ہے جبکہ اس کے برعکس میں اور فقط میں جمہوریہ ھذا میں رحمان کا پرتو ہوں۔ اس پر ردعمل آتا ہے۔ سوچ کا اختلاف سامنے آتا ہے۔ دو مختلف آراء قائم ہوجاتی ہیں۔ یہاں تک بھی قابل قبول ہے۔ ایسا ہر جگہ ہو ہی جاتا ہے۔

لیکن۔۔

جب آپ اس اختلاف کو بنیاد بنا کر مخالف فریق سے اتفاق کرنے والے ہر فرد کے اندر نقص نکالنا شروع کر دیتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ خود کو اور فقط خود کو حق کی عملی تصویر بنا کر پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں تو یہاں سے آغاز ہوتا ہے فاشزم کا، فسطائیت کا، جو deep inside ایک عدد نرگسیت کے مارے narcissist کے گرد گھومتی ہے۔

مثلاً بطور سیاستدان، بطور انسان، بطور باپ، بطور بیٹے، بطور کھلاڑی، بطور وزیراعظم، بطور اپوزیشن لیڈر، بطور حکمران آپ، آپ اور بس آپ ہی حق ہیں۔ آپ سے اختلاف رکھنے والے بدعنوان ہیں۔ چلیے یہاں تک بادل نخواستہ قبول کر لیتے ہیں۔ ہوں گے۔ لیکن ضروری نہیں سب آپ سے اتفاق بھی کریں۔ سو کچھ لوگ آپ سے اختلاف کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ وہ بھی چور، ہیں وہ بھی ڈاکو ہیں۔ یہ ہے فاشزم کی دلدل میں پہلا قدم۔

ایک درجہ مزید آگے چلتے ہیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ آپ بھی سیاستدان ہیں، آپ کے مخالفین بھی سیاستدان ہیں۔ آپ کے مخالفین بھی فیلو شپ رکھتے ہیں، آڈینس رکھتے ہیں، ووٹ بینک رکھتے ہیں اور آپ بھی۔ اس سپورٹ کا حجم مختلف ہو سکتا ہے تاہم یہ فیلو شپ ایک مسلمہ حقیقت ہے جس سے انکار بہرحال ممکن نہیں۔ اب آپ یہ کرتے ہیں کہ اپنے مخالف، مخالف کے حلیف اور ان سب کے ووٹرز کو بھی جاہل، گنوار، بریانی پر بکنے والے، کرپشن سے مستفید وغیرہ کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہاں آپ فسطائیت کے دلدل میں گھٹنے ڈبو چکے ہیں۔

اگلا درجہ یہ ہے کہ آپ سے اپنے ہی ملک کا کوئی ادارہ اختلاف کرتا ہے۔ یہ ادارہ کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ یہ ادارہ پارلیمان ہو سکتی ہے، فوج ہو سکتی ہے، عدلیہ ہو سکتی ہے، نیب ہو سکتی ہے، الیکشن کمیشن ہو سکتا ہے۔۔ غرضیکہ کوئی بھی ادارہ آپ سے اختلاف کر سکتا ہے۔ اس ادارے کے اختلاف کی بنیاد پر آپ یہ بیان جاری کریں کہ آئی جی پولیس میں تمہیں اپنے ہاتھ سے پھانسی چڑھاؤں گا، تو بھیا آپ کو مبارک ہو، فاشزم آپ کی ناف سے اوپر تک پہنچ چکی ہے۔

میرا خیال ہے جو لوگ بات سمجھنا چاہتے ہیں ان کے لیے مزید تفصیل رضیہ بٹ کا ناول ہی ہوگا، لہذا کوشش کر کے اختصار اپناتے ہیں۔

ایک دن آپ کو لگتا ہے دنیا کی اکثر سپر پاورز بھی آپ کے خلاف ہوچکی ہیں لہذا آپ کے وزیر مالیات کی تبدیلیاں، آپ کے آئی جی پنجاب کی تبدیلیاں، آپ کے وزیراعلی پنجاب کا وژن مشن وغیرہ یہ سب بکواس ہے، آپ کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ ان سپر پاورز کی مخالفت کا شاخسانہ ہے۔ آپ اس بنیاد پر اپنے تمام تر برے حالات کا ذمہ دار انہیں ٹھہرا دیتے ہیں۔ اللہ بخشے۔۔ بدنام زمانہ جرمن فاشسٹ یاد آگیا۔

لیکن ٹھہریے۔۔ معاملہ یہیں پر ختم کہاں ہوا؟

اب حالات یہ ہیں کہ آپ کو اپنے اور اپنے درجن بھر حواریوں کو چھوڑ کر اپنے تمام سیاسی مخالفین، اپنے چند ہفتے پرانے حلیف، ایک ماہ پہلے تک اپنے ہی ممبران سمیت پوری پارلیمان، پوری سپریم کورٹ، پوری عدلیہ، پوری فوج، پوری بیوروکریسی، میڈیا کا پچھتر فیصد حصہ، عوام کا وہ حصہ جو آپ کا مخالف ہے، یہ سب کے سب آپ کو اپنے خلاف سازش میں جتے نظر آتے ہیں تو بصد معذرت، آپ ایک بدترین فاشسٹ ہی نہیں، ایک عدد بھرپور احمق بھی واقع ہوئے ہیں۔

لیکن چونکہ ہم آپ کے برعکس آپ کے مقلدین کے وجود کو صفر نہیں مانتے لہذا ہمیں یہ دکھائی دیتا ہے کہ آپ کی اس نرگسیت اور اس فسطائیت کے باعث پاکستانی معاشرہ سیاسی طور پر شدید ترین polarization کا شکار ہوچکا ہے۔ اس کارنامے کا سہرا کسی اور کے سر نہیں جاتا کیونکہ بہرحال آپ کے سوا کوئی مخالفین کو زمین پر ابلیس کا نمائیندہ نہیں سمجھتا۔ آپ کے مخالفین بھی آپ کو کچرے کا ٹوکرا نہیں بلکہ نرگسیت سے بھرپور ایک قابل رحم شخصیت سمجھتے ہیں۔ آپ کے ثناء خواں البتہ آپ کو مسیحا سمجھتے ہیں اور اعتراف ہے کہ یہ سلسلہ کچھ عرصے جاری رہے گا۔

فرمایا "قوم مایوس ہے"۔ کسی اور نے کہیں اور فرمایا "قوم آج یوم تشکر منائے گی"۔

خان صاحب، آپ کی بدولت آج ایک نہیں دو پاکستان ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک کی سوچ خود کو حق دوسرے کو باطل سمجھنے پر مبنی ہے تو دوسرے کی سوچ آپ کو ٹیم ورک سے عاری نرگسیت کا مارا انسان سمجھنے پر مبنی ہے۔ اس کے آگے کوئی آپ کو یہود و ہنود کا پتلا کہے یا آپ کسی کو غدار امریکی پٹھو کہیں، یہ فقط عوام الناس کو بیوقوف بنانے کی ایک گھٹیا کوشش ہے۔

خان صاحب کی مہربانی سے آئیندہ کئی برس ہمیں اسی پولرائزڈ معاشرے میں جینا ہوگا۔

وما علینا۔۔ الخ