1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد عباس خان/
  4. گھس بیٹھی

گھس بیٹھی

ایک معزز (وہ اس لیئے کے ہم ہی قصوروار ہیں اسے یہاں پہنچانے میں) رکن قومی اسمبلی جناب عامر لیاقت صاحب نے گزشتہ دن مقدس ایوان میں بہت ہی لغاتی انداز میں جو گفتگو فرمائی مجھ جیسے ناچیز کی سمجھ میں تو کچھ نہیں پڑا۔ پھر بھی میری طرف سے انہیں انداز بیاں پر لکھنوی تہذیب میں آداب۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مجھے لکھنوی آتی نہیں خیر وہ خود بخوبی جانتے ہے اسلئے آداب قبول کرینگے۔ میں تو انہیں صرف اتنا کہونگا;
"انداز بیان خالی ہے سب سے جدا تیرا"
عرض کیسا بھی کرکے میں کچھ پرانی ڈکشنریوں کی مدد سے بالآخر بنیادی مقصد تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ تو جناب سے گزارش کرونگا کے غلط کو غلط کہنے کی عادت ڈال دے۔ ورنہ پھر وہی ہوگا جو ہنگامہ آپ کی وجہ سے کل ایوان میں ہوا۔ شاید آگے سے اس سے بھی زیادہ ہو۔ بجائے غلطی پر نادم ہونے کے اُس کا دفاع کر رہے ہیں۔ غلطی ہر انسان سے ہوتی ہے اور انسان ہی اسی پر معافی مانگتے ہیں۔ جناب آپ بہت ہی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مذہبی سکالر بھی ہے۔ آپ یقیناً جانتے ہونگے کے انسان کو اشرف المخلوقات کا لقب اس کی سوچ اور فکر کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ اگر آپ حق کو حق نہیں بولینگے تو پھر اسی انسان کیلئے ہی شرالدواب کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔
جناب آپ اپنے خطاب سے پہلے سوچ ہی لیتے کے جن کے حق میں میں بول رہا ہوں کیا یہ بات واقعی ان کے حق میں ہے۔ آپ کی باتوں سے تو ان سرفروش جوانوں کی گستاخی ہوئی ہیں۔ جو تہذیب و تمدن کے اندر رہتے ہوئے اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر دن رات ہماری بقاء کیلئے برسرپیکار ہیں۔ جو دن رات ایک کر کے سرحدوں پہ اپنی ڈیوٹی نبھا رہے ہیں۔ جو سیاچن کے گلیشیرز اور تھر کے ریگستانوں میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ جناب والا آپ نے بڑے ہی سلیقے سے دو آدمیوں کا ملبہ پورے ادارے پر ڈال کر خود کو بری الذمہ کر دیا۔ جن لوگوں نے غلطی بلکہ جرم کیا ہے وہ فوجی ہی کیوں نا ہو سزا ملنی چاہیئے۔
جناب والا شرم آپ کو مگر آتی نہیں جناب آپ پہلے اُس معصوم بچے کی بات سنتے تو ایسی حرکت کبھی نا کرتے جناب بچے کو اپنے باپ اور چچا کی کوئی فکر نا تھی بلکہ اُسے فکر تھی تو اپنے گھر کی چاردیواری، آبرو، عزت، عصمت، اور رسوائی کی تھی۔ خیر عزت کی فکر عزت دار لوگ ہی کرسکتے ہیں۔
جناب والا نے بڑے ہی اکھڑ کے ساتھ ان معصوم لوگوں کو گھس بیٹھیوں کا طعنہ جو بذات خود کبھی طالبان کے ہاتھوں یرغمال بنے تو کبھی فوج کے ہاتھوں آئی ڈی پیز بن کر علاقہ چھوڑا۔ جنہیں اگر کچھ آتا ہے تو وہ قربانی دینا ہے اُن لوگوں نے اپنے جان مال سب کچھ اس وطن عزیز کی خاطر قربان کر دیا۔ جواب میں کچھ نہیں مانگا۔ انہوں نے تو آپ سے کبھی اپنا گھر نہیں مانگا، انہوں نے تو آپ سے کبھی اپنا کاروبار نہیں مانگا، انہوں نے تو آپ سے کبھی اپنے شہید بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، بیوی، ماں کے بارے میں دریافت نہیں کیا۔ انہوں نے اگر ایک چیز واپس مانگی ہے تو وہ ہے تہذیب و ثقافت۔ اب اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی آپ ان کو ان کی تہذیب کے مطابق رہنے نہیں دیتے۔
جناب والا اگر آپ کسی قوم کی مدد ان کے روایات و ثقافت کے مطابق زندگی بسر کرنے میں نہیں کرسکتے تو آپ کو کوئی حق نہیں اُن پہ بےجا تنقید کرنے کی۔
اول تو شمالی علاقہ جات کے لوگوں کی آواز ایوان تک نہیں پہنچتی۔ دوئم اگر پہنچ بھی جائے تو آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے اُس پہ کارروائی نہیں ہوتی۔ آپ کو چاہیئے تھا کے آپ ایک پارلیمانی کمیشن کا مطالبہ کرتے جو تحقیقات کرتی کے کیسے عزت کے محافظ عزت کے در پہ ہوئے۔ مگر آپ کب ایسا کرینگے کیونکہ آپ کا بھی تو آقا کوئی اور ہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہیکہ گھس بیٹھی تو آپ لوگ ہے جو ایوان میں اپنے آقاؤں کی مدد سے گھس کر بیٹھ چکے ہیں اور اُن ہی کے اشاروں ناچتے نظر آتے ہیں۔ میں تو اب اس ایوان سے بیزار آگیا ہو۔ کبھی اس ایوان میں باادب لوگ ہوا کرتے تھے جن سے ہمارے جیسے نوجوان بات کرنے کا طریقہ سیکھتے تھے۔ لیکن اب افسوس مجھے اِن گھس بیٹھیوں پر آتا ہے جو پارلمنٹ میں موجود اور اس سے زیادہ یہ کہ اب ان جیسے لوگ ہماری تقدیر لکھیں گے۔ جنہوں نے پارلیمنٹ سے ایوان کم اور بالا خانہ زیادہ بنایا ہوا جہاں ہر کوئی اپنا ہی ڈرم پیٹتا ہے۔ جہاں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچی جاتی ہے ایک اگر سچ بات کر بھی دیتا ہے تو دوسرا یہ سب جاننے کے باوجود ناحق بات پھر سینہ تھان کر کھڑا ہو جاتا ہے۔