1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد عباس خان/
  4. ہمیں امن چاہیے

ہمیں امن چاہیے

وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کا منظورپشتین کو گلے لگانے کا سن کر میں تو دنگ رہ گیا۔ کہ منظورپشتین اچانک نا منظور سے منظور کیسے بنا؟ جس مین سٹریم میڈیا پر منظور کے نام لینے پر پابندی تھی جس پر اُسے انتہاپسند ڈکلئیر کیا جاچکا ہے اچانک اُسی میڈیا پر منظور کو گلے لگانے کی خبریں واقعی خیران کُن ہیں، خیر ہمیں اِس سے کیا یہ ایک الگ بحث ہے۔ اب جب کے ہمارے وزیر برائے داخلہ اُمور جذبہ خیرسگائی کے تحت منظور کو منظور کر رہا ہےتو اِس میں قباحت کس بات کی، ہمیں آج نہیں تو کل منظور کو گلے لگانا ہی تھا۔ کیونکہ ہمیں اُس کےنعروں سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن مطالبات سے نہیں، اُس کے مطالبات جائز ہیں۔ ہر اِنس سے ہمدردی رکھنے والا جانتا ہے کے منظور کے مطالبات جائز ہے۔

آخر وہ چاہتا کیا ہے؟ اُس کے مقاصد کیا ہے؟ اُس کے تو صرف تین بنیادی مطالبات ہیں;

پہلا مائنز اُٹھائیں جائےجن کی وجہ سے ۹۰ سے زائد آئی ڈی پیز گھروں کو واپسی کے دوران اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ وہ بھی اُن علاقوں میں جو فوج کی نزدیک کلئیر تھے-

دوسرا یہ کہ چیک پوائنٹ کم کئے جائے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ چیک پوسٹ امن برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے۔ لیکن یہ کہاں کا انصاف کے ہر پانچ منٹ بعد ایک چیک پوائنٹ وہ بھی اُس آپریشن کے بعد جس میں ۹۰ فیصد علاقے کو دہشتگردوں سے آزاد کروانے کا ڈھنڈورا کر چکے ہیں۔

تیسرا مطالبہ نامعلوم افراد کی بحالی جس پر حکومت (PTI) نے اخترمنگل (بی این پی) سے نہ صرف معاہدہ کیا ہے بلکہ اُن کو حکومت میں بھی شامل کیا۔ لہذاء حکومت کو اِس معاملے پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ یہ نہ ہو کے سادہ اکثریت سے بننے والی حکومت کو نا صرف منظور سے، بلکہ اپنے ایک اچھے رفیق سےبھی ہاتھ دھونے پڑیں۔ عین ممکن ہے کےاِس سے موجودہ حکومت ہی باقی نہ رہے۔

اور اِس کے ساتھ ساتھ ماورائے عدالت قتل اور جبری اقبالِ جرم کی روایت بھی ختم ہونی چاہیئے، جو کے شاید ہمیں انگریزوں سے وِراثت میں ملی ہے۔ تاکہ آئندہ نقیب محسود جیسا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نا آئے۔ اگر کوئی واقعی جرم کا مُرتکب ہوا ہے تو اُس کیلئے عدالتی نظام موجود ہے، عدالت میں پیش کیا جائے جرم ثابت ہونے پر عدالت ہی سزا تجویز کریں۔ ہمارے عسکری اداروں کو سول عدالتوں پے شاید اعتماد نہیں اس لئے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا کم از کم اُن میں تو نامعلوم افراد پیش کیئے جائے۔

اب رہی منظور پشتین کے نعروں کی بات ، تو نعرے ماسوائے دِل کے بھراس کے اور کچھ نہیں ہوتے۔ پھراس کی یہ خاصیّت ہے کے وہ ہوا میں جذب ہو جاتی ہے۔ نعرے حالات سے جنم لیتے ہیں اور حالات کے ساتھ ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ ہم نے اِس ملک میں سول نافرمانی کا نعرا بھی سُنا ہے اور لگانے والے آج کے حکمران ہیں، ہم نے لوگوں کو عدالتی فیصلے کے خِلاف سڑکوں پر نعرے لگاتے دیکھا ہیں، پھر اُنہی لوگوں کو ایک سال بعد اُسی عدالت کے فیصلے پے تالیاں بجاتے بھی دیکھا ہیں۔ اِس لیئے محض نعروں کی وجہ سے ہم اُس کے آئینی مطالبات کو پسِ پشت نہیں ڈال سکتے۔ اگر پھر بھی کسی کو اختلاف ہے تو ڈی جی آئی ایس پی آر جس کاکام بھی یہی ہے کے فوج کے بارے میں پیدا ہونےوالے غلط افواہوں کا جواب دے، جو کے اِس بات کی تنخوا لیتا ہے۔ کو منظورپشتیں سے براہِ راست مکالمہ کرنا چاہیئے، تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو۔

تاریخ نے بہت سے چہروں کو وقت، ظلم اور جبّر کے ساتھ بدلتے دیکھا، تاریخ نے مسولینی کو سوشلسٹ سے کیپٹلِسٹ بنتے دیکھا ہے، تاریخ نے شیخ مجیب جیسے پاکستان کی آزادی میں مؤثر کردار ادا کرنے والے کو پاکستان کو دولخت کرتے دیکھا ہے، تاریخ نے نواب اکبر بگتی جیسے پُر وقار طبیعت کے مالک لوگوں کو بغاوت پر اُترتے دیکھا۔ ہم نہیں چاہتے کے منظور جو کے باچا خان کے عظیم عدمِ تشدد کے فلسفے پر چل رہا ہے بدل جائے۔

منظور کو چاہئے کہ وقت کے ساتھ چلنا سیکھے بدلنا نہیں۔ مندرجہ بالا لوگ وقت کے ساتھ نہیں چلے تو وقت نے بھی اِنہیں اِیسی ٹھوکر ماری کہ کسی کا لاشا نہیں ملا تو کسی کو چوک میں اُلٹا لٹکایا گیا اور کسی کو اپنے ہی لوگوں نے قتل کیا۔ منظور کو چاہئے کے وہ اِن کے بجائے باچا خان، ایم ایل کنگ اور نلسن مندیلا جیسے لوگوں کو مشعلِ راہ بنائے اور اپنے حقوق کیلئے کوشش جاری رکھے، ساتھ ساتھ غیر ضروری نعروں سے بھی اجتناب کرے۔ نعروں کے بجائے کام پر توجہ دیں۔

ہم وزیرِ مملکت کے سوچ کی خیرمقدم کرتے ہیں اور اُمید رکھتے ہے کہ یہ بات صرف بات کی حدتک نہیں رہے گی بلکہ اِس پھر سنجیدگی سے عمل کیا جائے گا۔ منظور کو اعتماد میں لینا ریاست کا فرض اور ریاست کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہوگی۔ ریاست کو سافٹ ہینڈ کے ساتھ جانا چاہیے تاکہ ریاستی مسائل کا حل باہمی مشاورت سے نکالا جاسکے۔ آج اگر امریکہ جیسے شدّت پسند ملک طالبان سے بات چیت کے ذریعے حل نکالنے کا خواہاں ہے تو ہم اپنے ایک پُرامن شہری سے ٹیبل ٹاک کیوں نہیں کر سکتے۔ اب وقت ہے کے بیرونی قوتوں کا منہ بند کیا جائے اور ہم چاہتے ہیکہ دونوں (ریاست اور پی ٹی ایم) ایک میز پر آئے اور مِل بیٹھ کر مسائل پر گفتگوں کرے، کیونکہ ہمیں امن چاہیے۔