1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد عباس خان/
  4. ہم تو شاید مَر چکے ہیں

ہم تو شاید مَر چکے ہیں

عمرشریف دنیا کا مانا ہوا کامیڈین ہے، پچھلے دنوں یوٹیوب پر اُس کی ایک ویڈیو نظروں کے سامنے سے گزری جس میں وہ ایک جوک (لطیفہ) مارتا ہے کہ امیر لوگوں کے کتّے، کتّے نہیں ہوتے۔ میں سوچ میں پڑ گیا کے بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کے کتّے کتّے نہیں ہوتے۔ پھر کئی سال پہلے سوشل میڈیا پر ایک بات مشہور ہوئی تھی کے پشاور میں ایک کتّا دوسرے کتّے سے کہہ رہا تھا بازار مت جانا ورنہ انسان کی موت مرے گا۔ اِس کانِ غریبہ نے یہاں تک الفاظ سُنے ہیں کہ انسانیت اب صرف کتّوں میں ہیں۔ سوچتا ہو ارے یار تم کیوں کتّوں کے پیچھے پڑ گئے ہو؟ ہمیں کیا کہ کتّے کتّے ہوتے ہیں یا نہیں، کتّے انسان کی موت بھی مرتے ہے یا انسانیت صرف کتّوں میں ہے۔ درحقیقت ہم اِس حد تک گِر چکے ہیں کے کتّوں کو اپنے آپ سے بہتر ماننے لگے ہیں۔ وجہ کیا ہے کے ہم کتّوں سے بدتر ہو گئے وجہ کوئی اور نہیں ماسوائے نظام کے، سنا ہیکہ قیامِ پاکستان کے وقت قائد سے کسی نے پوچھا کے نومولود و نوزائید مملکت کا قانون کیا ہوگا مسٹرجناح نے بہت ہی اچھا جواب دیا کے ہمارا قانون آج سے چودہ سوسال پہلے بنا ہے۔ مطلب واضح ہے پھر سوال اُٹھتا ہے کے اُسی جناح نے ایک غیر مسلم کو وزیرِقانون کیوں بنایا؟ کیا وہ اسلامی نظام کے بارے میں جانتا تھا کہ وہ چودہ سوسال پہلے والا قانون لاسکے اِس کے جواب میں، میں لاجواب ہو جاتا ہوں۔ شاید جناح نے سوچا ہوگا زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں اِسی لیئے ۱۹۳۵ کا قانون نافذ کیا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ ہاں اِس میں کوئی شک نہیں کے قائد اعظم بہت ہی ذہین تھے۔
نظام پر بہت سے لوگوں نے کتابیں لکھی ہیں، اگر میں بھی نظام کی خرابی پر لکھنا شروع کروں اُمید بلکہ یقین ہے کم از کم دو تین کتابیں تو لکھ ہی دونگا۔ پھر کیا ہو گا، وہی کے پبلیکیشن کے لئے وہی مالدار طبقے کا انتخاب کرونگا تاکہ اُن کے پیسے سے اپنی کتاب شائع کر سکوں، پھر اُس سے مڈل کلاس لوگوں کا خون چوس سکوں۔ غریب تو ویسے ہی پڑھنے سے قاصر ہے وہ دو وقت کی روٹی کمائے یا کتاب خریدیں۔ فائدہ محض اُسی مالدار کو ہوگا جس کا پیسہ لگا ہے۔ اور ایک اور بات اُسے بھی معلوم ہے کے غریب پڑھ نہیں سکتا مڈل کلاس ایکشن نہیں لیگا۔ یہ تو ہوا ایڈم سمتھ کا سرمایادارانہ نظام، الحمداللہ ہم اِس سے بھرپور مستفید ہو رہے ہیں، یاد رَکھیے گا ۱۹۳۵ کا آئین۔
اب جب کتابوں کی بات شروع ہوگئی تو تھوڑی سی تعلیمی نظام کی بات ہو جائے۔ میں بذاتِ خود ایک یونیورسٹی کا طالبعلم ہوں۔ ہمارے ہاں یونیورسٹی (خاص ہو یا عام) تک رسائی غریب کیلئے تو بالکل ہی ناممکن ہے لیکن یہاں مڈل کلاس والے بھی پریشانی سے دو چار ہیں۔ میں جس جامعہ میں پڑھتا ہوں یعنی یونیورسٹی آف ہریپور جو کے محض فائلوں تک سرکاری ہے، وہاں پچاس سے زائد طالبعلموں کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا، فیس وقت پر جمع نا کرنے کی وجہ سمسٹر فریز (یعنی ایک سال کیلئے باہر کرنا) کر دیا۔ میں سوچتا تھا کے یونیورسٹی تو سرکاری ہے اُس، پہ غریب تو ویسے ہی تباہ ہے، لیکن مڈل کلاس والا بھی پریشانی سے دوچار ہے۔ اچھا اِن طالبعلوں میں بہت ہی ذہین لوگ بھی شامل ہیں جن میں ہمارے بینچ کی ٹاپر بھی شامل ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہیکہ وقت سے تاخیر پر پورا سال ہی ضائع کر دے، اگر سزا دینی ہی تھی تو جرمانے نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے، جرمانہ کر دیتے۔
میں نے سوچا کے اِن لوگوں کی آواز بن جاؤں، خیال آیا تم کون سے بل گیٹس کے بیٹے ہو، کک آوٹ کر دینگے، باپ کو کیا جواب دوگے۔ خاموش بس سمجھو جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ سوچا کوئی آواز اُٹھائیگا لیکن پھر سمجھ میں آیا کے مسئلہ صرف میرے ساتھ نہیں بلکہ ہمارے ساتھ ہیں۔ پھر سوچنے لگا گھٹن سی کیوں ہو رہی ہے مجھے، شاید صرف سانس لینے کا نام زندگی نہیں اِس کا مطلب ہے میں مَرچکا ہوں اندر سے آواز آئی نہیں ہم۔ تو ہمارا قاتل کون ہے جواب مِلا لارڈ میکالے کانظامِ تعلیم۔ یہ تو صرف ایک جھلک تھی جو میری نظروں کے سامنے سے گزری، ناجانے کتنے لوگ اور اِداروں میں اِس مسئلہ سے دوچار ہونگے۔
پھر سوچتا ہوں بدلاؤ کون لائے گا کیا کوئی خلائی مخلوق آئے گی، نہیں کبھی نہیں۔
بات سے بات نکلتی ہے خلائی مخلوق سے ریاستِ مدینہ ثانی کا نظامِ عدل یاد آیا جہاں امیر اربوں کی چوری کرنے والے کیلئے الگ ہیٹر والا روم کیونکہ اُس نے بڑی چوری کی ہے اور ایک وقت کی روٹی کیلئے کچھ چرانے والے کو تو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا، مزے کی بات وہاں اُس نے جس کیلئے چوری کی تھی(یعنی روٹی) وہ اُسے مِل جاتی ہے۔ اِسلئے وہ باہر آکر بڑا ہاتھ مارنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اِس مرتبہ زیادہ جیل ہو۔
اگر ہم ایک دوسرے کیلئے آواز نہیں اُٹھائیں گے تو کون اُٹھائےگا۔ واقعی ہم کتّوں سے زیادہ گِر چکے ہیں۔ جہاں ایک دوسرے کو بھونکتے ہوئے دیکھے تو بھاگ جائے۔