1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد عباس خان/
  4. فرشتہ

فرشتہ

اچھا بھائی مان لیتے ہیں کہ فرشتہ مومند، مومند نہیں ایک افغان تھی۔ میں تو کبھی کبھی سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ ہمارا میڈیا اِس ملک کا کیا حال کر کہ چھوڑ گیا۔ شاید آپ لوگوں کو خبر ہوگی کے گزشتہ دن اسلام آباد میں ایک دس سالا بچی کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی غالبًا لڑکی کو ذیادتی کے بعد بڑی بیدردی سے قتل کیا گیا تھا، جس کی شناخت فرشتہ نامی کمسن بچی سے ہوئی۔

اُس کے بعد بچی کے بھائی نے ایک ویڈیو میں اقرار کیا کہ چند دن پہلے جب میری بہن لاپتہ ہوئی تب میں رپورٹ لکھوانے کیلئے قریبی تھانے گیا تو ایس ایچ او کا جواب تھا کہ وہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی۔ یہ سن کر مجھ پر تو سکتہ طاری ہوگیا پہلی بات تو یہ ہے کہ دس سال کی بچی کیسے کسی کے ساتھ بھاگ سکتی ہے بھاگنا تو دور کی بات سوچ بھی نہیں سکتی۔ اچھا بھائی یہ بھی مان لیتے ہیں لیکن رپورٹ لکھوانا اور جانچ کرنا تو آپ کی ڈیوٹی تھی۔

ذرہ سوچئے اگر گھر میں چھوٹے بہن، بچی رکھتے ہو کہ اُس بھائی کے دل پر کیا گزری ہوگی جب اُسے نے خود اپنے محافظ کے منہ سے یہ بات سنی ہوگی۔ شرم نام کی بھی کوئی چیز ہوتی۔ اُس بچی نے اُن درندوں کی کتنی منتیں کی ہونگی کتنے بار اُن کے پاؤں پہ پڑی ہوگی کتنی مرتبہ اپنے والد کو پکارا ہوگا لیکن افسوس صد افسوس کہ ہمارے محافط ٹس سے مس نہ ہوئے۔ پھر کیا ہوا وہی کہ اُس ایس ایچ او کو معطل کر دیا گیا جسے چند دن بعد دوبارہ بحال کر دیا جائے گا یہی سب کچھ چلتا آرہا ہے۔ کیسے ایسے آدمی کو معاف کیا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے ایک معصوم فرشتے کی آبرو چلی گئی۔ آج فیض احمد فیض بہت یاد آرہے ہیں۔

جس دیس سے ماؤں بہنوں کو
اغیار اُٹھا کر لے جائیں

جس دیس سے قاتل غنڈوں کو
اشراف چھڑا کر لے جائیں

جس دیس کی کورٹ کچہری میں
انصاف ٹکوں پر بکتا ہو

جس دیس کا منشی قاضی بھی
مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو

جس دیس کے چپے چپے پر
پولیس کے ناکے ہوتے ہوں

جس دیس کے مندر مسجد میں
ہر روز دھماکے ہوتے ہوں

جس دیس میں جاں کے رکھوالے
خود جانے لے معصوموں کی

جس دیس میں حاکم ظالم ہو
سسکی نا سنیں مجبوروں کی

جس دیس کےعادل بہرے ہوں
آہیں نا سنیں معصوموں کی

جس دیس کے کوچوں گلیوں میں
ہر سمت فحاشی پھیلی ہو

جس دیس میں بنتِ حوا کی
چادر بھی داغ سے میلی ہو

جس دس کے سادہ لوح انساں
وعدوں پے ہی ٹالے جاتے ہو

اُس دیس کے ہر اک لیڈر پر
سوال اٹھانا واجب ہے

اُس دیس کے ہر اک حاکم کو
سولی پے چڑھانا واجب ہے

اُوپر سے غضب یہ کے اسے مین سٹریم میڈیا کی جانب سے نسلی تعصب کا رنگ دیا گیا پہلے پہل تو بات کرنا بھی گوارہ نہ کی پھر بات بھی کی تو کچھ اس ڈھنگ سے کے متاثرین کو شے دی گئی کہا گیا کہ فرشتہ مومند نہیں تھی بلکہ ایک افغان تھی، میں یہاں پوچھنا چاہونگا ارے فرشتے کا کون ذات نسل دیکھتا ہے وہ تو معصوم ہوتا ہے۔

بولتے ہیکہ بچی کے باپ نے نقلی شناختی کارڈ بنوایا تھا وہ ہمارے اداروں پے ایک الگ سوالیہ نشان ہے۔ ہم انسانیت کے اُس درجے سے بھی گر چکے ہے جہاں انسان کو اپنے آپ میں ایک وحشی نظر آتا ہے۔ شاید کہ ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں ہو۔ اچھا جان بوجھ کر اس معاملے کو بین الاقوامی رنگ دیا جاتا ہے۔ اب اگر افغان یہ آواز اُٹھائے کے میری بچی تمہارےدرندوں کی شکار بنی کیوں؟ تو کیا جواب دو گے۔ باپ افغانی تھا بچی کا کیا قصور تھا۔ فرشتہ تو معصوم تھی۔ میں تو کہتا ہوں ;

ہائے کرامًا کاتبّین بھی سہم گئے ہونگے

جب درندےنے فرشتے کو ہاتھ لگایا ہوگا

حکومت کو چاہئے کے بچی کے رنگ نسل ملک کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مجرمان کو کیفرکردار تک پہنچائے تاکہ انصاف کا ترازو برابر ہو اور کوئی کم احساسی کا شکار نہ۔ ورنہ میڈیا کو تو مصالحہ خبر چاہئے ہوتی ہے۔ اور چینل مالکان بھی چاہتے ہیں کے اُن کا چینل بین الاقوامی دنیا تک رسائی حاصل کرے۔