1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد اشتیاق/
  4. 28 جون 2013

28 جون 2013

28 جون 2013، کی دوپہر جمعہ کے دو فرض جماعت کے ساتھ پڑھ کے میں 1:45 پہ لوٹا۔ روالپنڈی ملٹری ہسپتال کے شعبہ امراض دل کے انتہاہی نگہداشت وارڈ کے باہر سٹیل کے بنے بنچ پہ بیٹھا ہی تھا کہ نیند سے آنکھیں بوجھل ہو گئیں۔ نیند نے ایسے گھیرا جیسے صدیوں کا انیندرا لئے پھر رہا ہوں۔ شائد جب قسمت سوئی ہو تو انسان کا سونا ہی سب سے کم تکلیف دہ ہوتا ہے۔ 5 منٹ کی نیند بہت گہری تھی۔ اتنی گہری کہ مجھے اس دکھ اور درد کا احساس بھی نہیں ہوا جو اس وارڈ میں لیٹے میرے اباجی کو ہو رہا تھا۔ وہ موت سے لڑ رہے تھے۔ ان کو لڑتے لڑتے آج تیسرا دن تھا۔ تین دن سے ان کی حالت سنبھل نہیں رہی تھی۔

ڈاکٹر نے آسان زبان میں سمجھایا تھا کہ ان کو تیسرا ہارٹ اٹیک جو ہوا تھا ابا جی اسی کنڈیشن میں تھے جو دل کے دورے کے دوران ہوتی ہے۔ وہ اسی تکلیف کو برداشت کر رہے تھے تین دن سے جو دل کے دورے کے دوران ہوتی ہے میں وہ محسوس کر سکتا تھا۔ کیونکہ مجھے انہوں نے صرف ایک دفعہ کہا تھا سینے پہ ہاتھ لگا کے کہ "یہاں درد ہوتا ہوتا ہے" سخت۔۔ اور میں باہر آ کے چھوٹے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کے رو پڑا تھا۔ میرے ساتھ بیٹھی باجی نے بہت بہلایا۔ بہت حوصلہ دیا لیکن جھڑی تھی رکتی نہ تھی۔۔۔ سانس تھی کہ اندر والی باہر نہیں جا رہی اور باہر والی اندر نہیں آ رہی۔۔

باجی نے حوصلہ دیا "ڈاکٹر نے کہا ہے ان کو ہلکا سا درد ہو رہا ہے۔۔۔۔ لیکن ہم پین کلر نہیں لگا سکتے 24 گھنٹے میں ایک ہی لگتا ہے"

مجھے پتہ تھا اگر میرے اباجی کہہ رہے ہیں کہ "سخت" درد ہے تو وہ درد کوئی عام درد نہیں ہوگا۔۔۔ وہ جان لیوا درد ہو گا۔ مجھے وہ دن یار ہے جب ان کو ایک ایکسیڈینٹ میں پنڈلی پہ چوٹ لگی تھی جس کو انہوں نے اپنی زبان میں "جھریٹ" قرار دیا تھا۔ اس کو رگڑ کہہ لیں۔ چھلنا کہہ لیں۔ تیسرے دن اس زخم پہ دوائی لگا رہے تھے کہ گزرتے گزرتے میری نظر پڑ گئی۔ میں سکتے میں آگیا۔ وہ "جھریٹ" تین انچ لمبا اور ایک انچ گہرا زخم تھا۔ پنڈلی کی ہڈی کے ایک طرف اندر کا گوشت صاف نظر آ رہا تھا۔ زخم دیکھ کے مجھے چکر آیا۔ میں صرف اتنا کہہ سکا "ابا جی اے جھریٹ اے"۔۔۔

جب انہوں اپنے مخصوص انداز میں منہ بنا کر کہا کہ "سخت درد" ہے تو میں اندر سے ہل گیا کہ وہ "کتنا" سخت درد ہو گا۔ ان کے یہ الفاظ مجھے اندر باہر سے کاٹ رہے تھے۔ میں جو دو بچوں کا باپ تھا۔ میری لاابالی اور لاپرواہی کے آس پاس چڑھی اونچی دیوار مجھے عین درمیان سے ڈھتی ہوئی لگ رہی تھی۔ میں باجی کو صرف اتنا کہہ سکا "باجی وہ درد معمولی نہیں ہو سکتا جو ان کو سخت لگ رہا ہے "۔۔۔۔

1:50 پہ کوئی ابا جی کا نام لے کے اٹینڈینٹ کو ڈھونڈ رہا تھا۔ میں گہری نیند میں تھا لیکن بخدا گہری نیند میں اس کی آواز مجھے سنائی دی تھی۔ پاتال سے آتی آواز کی طرح۔۔۔۔۔۔ ایسا کبھی نہیں ہوا میری زندگی میں کہ میں کسی کی پہلی آواز پہ اٹھوں۔ لیکن اس دن وہ مجھے آواز بالکل واضح آئی۔ میں اٹھ کے اس کے ساتھ چل پڑا۔ وارڈ میں ڈاکٹر نے صرف اتنا کہا تھا "سوری، ہم نے کوشش کی، پر ہم ناکام ہو گئے "

میں نے حوصلے سے بات سنی۔ وارڈ سے باہر آیا۔ اور اس کی دیوار سے ٹیک لگا کہ دوسری دفعہ پھوٹ پھوٹ کے رویا۔۔۔۔

محمد اشتیاق

محمد اشتیاق ایک بہترین لکھاری جو کئی سالوں سے ادب سے وابستہ ہیں۔ محمد اشتیاق سخن کدہ اور دیگر کئی ویب سائٹس کے لئے مختلف موضوعات پہ بلاگز تحریر کرتے ہیں۔ اشتیاق کرکٹ سے جنون کی حد تک پیار کرنے والے ہیں جن کا کرکٹ سے متعلق اپنی ویب سائٹ کلب انفو ہے جہاں کلب کرکٹ کے بارے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ بہ لحاظ پیشہ محمد اشتیاق سافٹ ویئر انجینئر ہیں اور ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کر رہے ہیں۔