1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد اشتیاق/
  4. عدم اعتماد اور شیروانی

عدم اعتماد اور شیروانی

اپوزیشن کی حالیہ لائی گئی عدم اعتماد میں اپوزیشن کی تمام پارٹیوں نے بھرپور شرکت کی۔ مولانا فضل الرحمن جیسے منجھے ہوئے سیاستدان، زرداری جیسے شطرنج کے کھلاڑی نے مسلم لیگ کو آخر قائل کر ہی لیا کہ وہ اس حکومت کے ہٹانے کی کسی کوشش کا حصہ بن جائے۔ ایسی کوئی بھی کوشش مسلم لیگ کے ایجنڈے پہ نہیں تھی باوجودیکہ انہوں نے ہر قسم کی سختی کا سامنا کیا تھا۔ اور ان کے لیڈر نواز شریف ابھی بھی ملک سے باہر رہنے پہ مجبور ہیں ان کی طرف سے کبھی بھی حکومت کو گرانے کے کسی عمل میں شرکت کا عندیہ نہیں دیا گیا۔

نواز شریف کی سیاست میں انتظار کرنے کی خوبی کا بہت عمل دخل ہے۔ 2008 کی پی پی حکومت میں پریشر کے باوجود انہوں نے پانچ سال انتظار کیا جس نے پنجاب سے پی پی کے صفائے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ اب کی دفعہ بھی ان کی پالیسی بھی انتظار کی ہی نظر آرہی تھی مگر پارٹی کے اندرونی پریشر پر انہوں نے عدم اعتماد کی حمایت پہ آمادگی کا اظہار کر دیا۔ لیکن بظاہر ایسے نظر آتا ہے کہ میں میاں صاحب اس سارے پلان سے مطمئن نہین تھے اور صرف اپنے چھوٹے بھائی کے پرزور اصرار پہ شامل ہوئے۔

شہباز شریف کی شیروانی کے لیے بے چینی اب ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ میاں نواز شریف نے اپنی سالوں کی سیاست، پچھلے چھ سال کی تکلیفیں اور اپنی بیٹی کا مستقبل چھوٹے بھائی کی خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے داو پہ لگا دیا۔ اگر شہبا شریف شیروانئ پہن لیتے ہیں تو واقعی داو پہ ہی لگ جانا ہے۔ کیوں کہ مودجود معاشی مسائل معمولی عددی برتری، بڑی تعداد میں اتحادی، سیاسی مخالفیں کے ساتھ حکومتی اتحاد رکاوٹیں ہیں کسی بھی بڑے مسئلے کے حل میں۔

میاں نواز شریف نے اپنا پورا وزن نہیں ڈالا اس تحریک کے حق میں۔ چند خیر سگالی کے پیغام، شہباز شریف کو مذاکرات کا اختیار، اور مریم نواز کی جلسے میں شرکت ان کا حصہ تھا اس کار خیر میں۔ ان کو اپنے بھائی کی سیاسی بصیرت کا یقینا ہم سے زیادہ پتہ ہے اس لیے انہوں نے اس بات کا زیادہ اچھا اندازہ لگایا ہو گا جو ابھی سب کے ساتھ ہو رہا ہے۔

سوشل میڈیا ٹیم شہباز شریف کی نہیں ہے وہ مریم نواز کے زیر انتظام کام کرتی ہے۔ عوام کو متحرک کرنا ان کے بس میں نہیں۔ مسلم لیگ کے کارکن کو موبائلائز کرنا نواز شریف اور مریم نواز شریف کے علاوہ کسی کے بس میں نہیں ہے۔ اسی طرح سیاسی بساط کی جو سمجھ بوجھ میاں نواز شریف کے پاس ہے وہ کسی اور کے پاس نہیں۔

اس سیاسی سمجھ بوجھ کا نتیجہ ہے کہ ساری انتظامی طاقت اور جاسوسی نظام کے اسٹیبلشمنٹ ان سے زچ ہی رہی ہے۔ ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ شہباز شریف سے معاملات طے کرنے میں آسانی محسوس کرتی ہے۔ شہباز شریف انتظامی امور میں مہارت رکھتے ہیں لیکن وہ عوام کی نبض جاننے کے صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس لیے اسٹبیلیشمنٹ کو آسانی لگتی ہے ان سے ڈیل کرنے میں۔

عدم اعتماد کا مقابلہ عمران خان نے جس بھونڈے انداز میں اس کو سٹے شدہ ڈپٹی سپیکر کے ذریعے مسترد کر کے جو آئینی بحران پیدا کیا ہے اس نے خود عمران خان سمیت سیاستدانوں کو ایک طرح اس کھیل سے ہی باہر کر دیا ہے۔ عمران خان نے واضح طور پہ یہ عندیہ دے دیا ہے کہ وہ کسی اور کو کھیلنے نہیں دے گا۔ ان کی ساری امیدیں اپنی سٹریٹ پاور اور پشاور زلمی کے نیٹ ورک سے ہیں۔ اب یہ واضح ہے کہ وہ کسی بھی نئے سیٹ اپ کو سکون سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ اور اپنےکارکنان کو دی گئی کالز کے ذریعے باقی سیاستدانوں اور راولپنڈی کو پیغام دے رہے ہیں کہ وہ ہنگامے کرنے کی صلاحیت اور ارادہ رکھتے ہیں۔

ایک طرح سے انہوں نے ذمہ داری شفٹ کر دی ہے باقی سیاستدانوں پہ کہ وہ اس نظام کو چلائیں اور میں اس کو نہیں چلنے دوں گا۔ ملک، قانون، آئین سب باقیوں کی ذمہ داری ہے عمران خان صرف اس میں نقب لگائے گا۔ اس کو تھریٹ کرے گا۔ ان کی یہ حکمت عملی کامیاب ہے، تمام سیاستدان اس احساس ذمہ داری تلے دبے جا رہے ہیں۔ جس کا کمزور سا جواب انہوں نے سپریم کورٹ جا کے دیا ہے اس سے بہتر جواب ان کے پاس نہیں ہے۔

بہ امر مجبوری اپوزیشن کو سڑکوں پہ آنا پڑے گا۔ ان کو سوچنا پڑے گا کہ ملک کا نظام اور آئین کو مدنظر رکھنا ہر وقت ان کی ذمہ داری نہیں۔ احساس ذمہ داری کو عمران خان نے آپ کی کمزوری بنا لیا ہے اور یہ بھی اسے لاڈلوں کی طرح ٹریٹ کر رہے ہیں کہ وہ خراب کرنا چاہتا ہے اور ہم نے خراب نہیں ہونے دینا تو پھر آپ کچھ نہیں کر پائیں گے۔ اگر وہ پچ خراب کر رہے ہیں تو یہ احساس دلائیں کہ پھر سارا میدان ہی بند ہو گا۔ وہ وزیر اعظم ہو کے بندے لانے کی دعوت دے رہا ہے تو پھر آپ بھی ایک دفعہ بند ہی کر دیں۔

پہلے اس میں چل کیا رہا ہے۔ اور اگر آپ چلانے کے لیے مرے جا رہے ہوں گے تو وہ بار بار آپ کو بند کرنے کے لیے دھمکائیں گے۔ بلیک میل ہونے کی ضرورت کیا ہے۔ سیاستدان وہ بھی ہیں اور آپ بھی ہیں جتنے وہ ذمہ دار ہیں اتنے ہی آپ ذمہ دار ہیں۔ وہ باہر نکال سکتے ہیں عوام کو تو آپ بھی نکالیں۔ اپنی طاقت شو کریں۔ لیکن عوام کو موبلائز کرنے میں کی طاقت صرف میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی میں ہے۔ اس لیے آپ اس بڑے لڑکے کے آنے کا انتظار کریں اور اس کو واپس لائیں۔

وڈے میاں اوری آپ ای گھنڈ چکن گے

محمد اشتیاق

محمد اشتیاق ایک بہترین لکھاری جو کئی سالوں سے ادب سے وابستہ ہیں۔ محمد اشتیاق سخن کدہ اور دیگر کئی ویب سائٹس کے لئے مختلف موضوعات پہ بلاگز تحریر کرتے ہیں۔ اشتیاق کرکٹ سے جنون کی حد تک پیار کرنے والے ہیں جن کا کرکٹ سے متعلق اپنی ویب سائٹ کلب انفو ہے جہاں کلب کرکٹ کے بارے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ بہ لحاظ پیشہ محمد اشتیاق سافٹ ویئر انجینئر ہیں اور ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کر رہے ہیں۔