1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد اشتیاق/
  4. دانش سے محروم دانشور

دانش سے محروم دانشور

پتہ نہیں کیوں مجھے ہر وہ دانشور اور سیاستدان ذلیل محسوس ہوتا ہے جو پہلے عمران کے گن گاتا تھا اور اب اسی ایمانداری سے ہمیں بتاتا ہے کہ اس سے امیدیں غلط تھیں۔ شرم دلانے پہ کہتا ہے اندازہ غلط ہو گیا۔ تم اگر ایک شخص کی 22 سال کی سیاست، 48 سال کی شہرت، 68 سال کی زندگی اور 5 سال کی حکومت سے اس شخص کی ذہنی صلاحیتوں، اخلاقیات، سمجھ بوجھ، کے بارے اندازہ نہیں لگا سکتے تو مستقبل بینی کرتے ہوے لوگوں کی امیدوں کے پہاڑ کیسے کھڑے کرتے ہو۔ اگر اتنی سی دانش نہیں تو دانشور کیسے کہلاتے ہو۔ اگر روزانہ ٹی وی پہ بیٹھ کے اناپ شناپ بول کے کوئی اٹکل پچو لگانے کا نام دانشوری ہے تو اس کے دن بھی تھوڑے ہیں۔ الیکٹرونک میڈیا کے دن تھوڑے ہی ہیں۔ سلسلہ شروع ہے لیکن بہت جلد وہ وقت قریب ہے کہ کسی چینل پہ آنے والی خبر کا لوگ ایسے ہی ٹھٹہ اڑائیں گے جیسے وزیر اعظم کی طرف سے "غربت کے خاتمے" کے اعلان کا۔

الیکٹرونک میڈیا کو اس حال میں پہنچانے کا کریڈٹ اینکرز کو جاتا ہے جنہوں نے ایسے مسخرے دانشور تخلیق کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کسی کارٹون سیریز کی طرح مختلف شیپ اور سائز میں میسر یہ کارٹون روزانہ 2، 3 گھنٹے کے لئے بٹھا دئیے جاتے ہیں جو پیسے اور وفاداری کے بدلے گیان بانٹتے ہیں۔ ایک ایک نابغہ دس دس شعبہ ہائے زندگی کا ایکسپرٹ ہے۔ حد یہ ہے کہ جرنیلی دانشور بتا رہے ہوتے ہیں کہ جمہوریت کیسی ہونی چاہئے۔ وکیل بتا رہا ہوتا ہے دفاعی حکمت عملی کیا ہونی چاہئے۔ اور شرابی بتا رہا ہوتا اسلامی معاشرہ کیا ہوتا ہے۔

ایسا مفلوک الحالی کا دور ہے، دیہاڑی دار اخبار نویسوں اور آزادی اظہار رائے کے چیمپئن جو اپنی جدوجہد کی داستانیں سنا سنا کے ہمارے کان پکاتے رہے۔ ایسے فالج کا شکار ہیں کہ اپنی مرضی کے لفظ نہیں بول سکتے پھر بھی یہ مجاہد نہ تو سینسر شپ کا نام لیتے ہیں نہ اس کے خلاف جہاد کے لئے نکلتے ہیں۔ جو سیاستدانوں کو چھبیاں دے دے کے پوچھا کرتے تھے کہ بتائیں آپ کے خلاف اس سازش کے پیچھے "کس" کا ہاتھ ہے۔ آج اپنی باری پہ ان کی زبانیں گنگ ہیں۔ نام نہیں لیتے کہ کس نے لگائی ان پہ پابندی۔ ان کے آس پاس لوگوں، ان کے کولیگز پہ پابندیاں لگ رہی ہیں لیکن وہ دستر خوان چھوڑنا کجا یہ بتانے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتے کہ ان کے کولیگز کو کس جرم میں نکالا گیا۔

بڑے بڑے صحافیوں کو جن کی عمریں اس کام میں گزریں، ان کو 19 گریڈ کا سرکاری ملازم بتاتا ہے کہ صحافت کیسے کرنی ہے اور وہ بیبے بچوں کی طرح سر جھکا کہ "حضور کا اقبال بلند ہو" کی عملی شکل بنے نظر آتے ہیں۔ یہی لوگ کبھی صحافت کے دفاع کے لئے سیسہ پلائی دیوار بن جایا کرتے تھے اب بھیگی بلی بنے نظر آتے ہیں۔ ان میں بھی مرنجان مرنج قسم کے صحافی جن کو کہیں سے حصہ نہیں ملتا صرف خوف کی وجہ سے تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے معصومیت سے مشکل سوالوں پہ پوچھتے ہیں "سمجھ نہیں آئی کہ سوال کیا ہے"

ان صحافیوں، دانشوروں، اینکرز اور سیاستدانوں کی حیثیت میری نظر میں ککھ کے برابر بھی نہیں جن کی دانش چند دن آگے دیکھنے کے قابل نہیں۔ جو اپنے لکھے کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ جو جبر کے سامنے زبانی احتجاج کرنے کی آخری درجے کی ایمانی ذمہ داری نہیں نبھا سکتے۔ جن کا خوف میں آخری ہتھیار معصومیت ہوتا ہے۔

یہ لوگ جب کسی جمہوری دور میں جبرواستداد کے خلاف لڑ رہے ہوں گے تو میں ان کا ساتھ تو دوں گا پر ان کو وہ عزت نہیں دوں گا جو کسی ظلم کے خلاف لڑنے والے کا حق ہوتا ہے۔

محمد اشتیاق

محمد اشتیاق ایک بہترین لکھاری جو کئی سالوں سے ادب سے وابستہ ہیں۔ محمد اشتیاق سخن کدہ اور دیگر کئی ویب سائٹس کے لئے مختلف موضوعات پہ بلاگز تحریر کرتے ہیں۔ اشتیاق کرکٹ سے جنون کی حد تک پیار کرنے والے ہیں جن کا کرکٹ سے متعلق اپنی ویب سائٹ کلب انفو ہے جہاں کلب کرکٹ کے بارے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ بہ لحاظ پیشہ محمد اشتیاق سافٹ ویئر انجینئر ہیں اور ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کر رہے ہیں۔