1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد اشتیاق/
  4. مکافات عمل

مکافات عمل

الحمدللہ، اللہ کی ذات بے نیاز ہے۔ ہم نے یہ دن دیکھنے کے لیے بہت انتظار کیا۔ لوگوں کی باتیں سنیں۔ طعنے سنے۔ پڑھے لکھے لوگوں نے ایسے ایسے ملکوں کے حوالے دئیے جن کو بعد میں ہم نقشے پہ ڈھوندا کرتے تھے۔ ہم جمہوریت کی بات کرتے تھے وہ ہمارا مذاق اڑاتے تھے۔ ہم انہیں آمریت کے کندھوں پہ بیٹھ کے لائی گئی جمہوریت کا نقصان بتاتے تھے تو وہ تجاہل عارفانہ سے کام لیتے تھے۔

ہم انہیں سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا ذکر کرتے تھے وہ ہمیں بغل سے "سیم پیج" نکال کے میسنا میسنا ہنستے تھے۔ ہم الیکٹیبلز کی بیساکھیوں کی کمزوری کا سناتے تھے وہ ہمیں خان کی قوت اور طاقت کے صنف مخالف ثبوت پیش کیا کرتے تھے۔ ہم میڈیائی طوائفوں کی بے وفائی کی آفاقی حقیقت بتاتے تھے۔ تو وہ ہمیں ان کے تازہ عشووں کی داستان سناتے تھے۔

ہم اقتدار کے متناہی ہونے کا ذکر کرتے وہ اقتدار کی کرسی کو ٹھونک کے اس کے پایوں پہ لکھے جرنیلوں کے نام پڑھ کے سناتےہم ووٹ کی حرمت کا ذکر کرتے وہ اس کی پامالی کے لاتعداد واقعات سناتے۔ ہم نے بارہا کہا کہ اس کو یہیں روک لو ورنہ تمہاری طرح کی نسل پامالی سے وجود میں آتی رہے گی پر ان کہ استہزائیہ ہنسی جواب ہوتی۔

پھر ایک دن یوں ہوا کہ ابا جی کی ریٹائرمنٹ قریب آگئی۔ ریٹائرمنٹ کی قبر کا خوف حقیقی قبر کے خوف سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ باندری کی طرح ہر کسی کو اپنی جان پیاری ہے۔ اپنی حفاظت کے پلان میں رکاوٹ ابا جی کو قبول نہ ہوئی اور دنیا پلٹ گئی۔۔

ترین جہاز دینے والا ترین نہ رہا، علیم پلاٹ دینے کے باوجود علیم نہ رہا۔ راجہ ریاض کیا بدلا فضا بدل گئی۔ اب اپنے پالتو جگہ جگہ دم پکڑنے میں لگے ہیں پر طوائفوں نے منہ پھیر لیا۔ چند ایک کے دل میں جگہ ضرور ہے پر ان کی جگہ بولی کے وقت بھی دوسری قطار میں ہوتی ہے۔ اب سوچ پیدا ہوئی کہ طوائفیں لوگوں کا کردار خراب کر رہی ہیں ان کو پابند کرنے کے لیے "پھیکا" قانون بھی لایا گیا پر ان کا رنگ بہت گہرا ہے۔ "پھیکا" کام نہ آیا۔

اب وہی ہم ہیں، سکون میں بیٹھے۔ پاپ کارن کھا رہے اور اپنے الفاظ ان کے منہ سے سن رہے ہیں۔ کوئی عقلمند ہی سمجھ سکتا ہے کہ اپنے الفاظ دوسرے کے منہ میں دیکھ کے کیا سرشاری حاصل ہوتی ہے۔ اب تم ہمیں بتا رہے ہو کہ الیکٹیبلز "اخلاقی" طور پہ پابند ہیں کیوں کہ "ہمارا" ووٹ لے کے آئے ہیں۔ بھائی وہ "الیکٹیبلز" ہیں سمجھایا تھا نہ لیتے۔۔ کیوں لیا ان کو۔ وہ تو آپ کے پاس آتے ہوئے بھی ایسے ہی تھے۔ اب جاتے ہوئے بھی ویسے ہیں ہیں۔

اندر والے کرپشن کا الزام لگا رہے ہیں۔ چور ڈاکو دلا کہہ رہے ہیں۔ آپ ان کو دلا کہہ رہے ہیں۔ ہمیں دونوں کی بات پہ ذرا برابر بھی شک نہیں۔ بھلے تیسرے کو بھی شامل کر لو۔ تصویروں کے اوپر کالا رنگ لگا کے ساڑ نکال رہے ہو۔ ان کا منہ پہلے ہی کالا تھا تمہیں اب نظر آیا۔ اس گڑھے کی طرف خود آئے ہو۔ ہم نے تو بار بار احساس دلایا پر تم اسٹیبلشمنٹ کے گھوڑے پہ کود رہے تھے تم نے سنا ہی نہیں۔۔

اب ملین لوگ لاو یا ہوسٹلوں پہ چھاپے مارو۔ نتیجہ سامنے ہے۔۔ اور یہ بھی بھول جاو کے اپوزیشن میں آ گئے تو دھرنے دے پاو گے۔ اب کی دفعہ میدان کھلا کر کے دینے والے دکان بڑھا گئے۔ اپنے زور بازو پہ تم صرف بنی گالا میں پش اپس نکال سکتے ہو۔

یہ تمہاری تباہی کی داستان تو ہے ہی۔ ڈوب مرنے کا مقام ان کے لیے بھی ہے جنہوں نے صرف ایک شخص کی نفرت میں ترقی کرتے پاکستان کو اندھیروں میں دھکیل دیا۔ تباہی کے دہانے پہ لے آئے۔ اور وہ شخص آج بھی سات سمندر پار سے اگلے الیکشن کے ٹکٹ کی ہڈی لہراتا ہے اور تمہارے اتحادی ادھر سے ادھر ہو جاتے ہیں۔

اسے کہتے ہیں پاور۔۔

طاقت۔۔

عوام کی طاقت

محمد اشتیاق

محمد اشتیاق ایک بہترین لکھاری جو کئی سالوں سے ادب سے وابستہ ہیں۔ محمد اشتیاق سخن کدہ اور دیگر کئی ویب سائٹس کے لئے مختلف موضوعات پہ بلاگز تحریر کرتے ہیں۔ اشتیاق کرکٹ سے جنون کی حد تک پیار کرنے والے ہیں جن کا کرکٹ سے متعلق اپنی ویب سائٹ کلب انفو ہے جہاں کلب کرکٹ کے بارے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ بہ لحاظ پیشہ محمد اشتیاق سافٹ ویئر انجینئر ہیں اور ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کر رہے ہیں۔