1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. ایک لفظ مکافات عمل کا بھی تو ہے

ایک لفظ مکافات عمل کا بھی تو ہے

قانون سازی فقط پارلیمان کی ذمہ داری اور اختیار ہے۔ بدقسمتی سے 1985ء کے بعد سے منتخب ہونے والی اسمبلیوں نے قانون سازی پر ہی توجہ نہیں دی۔ غیر جماعتی انتخابات کی بدولت منتخب ہونے والی پہلی اسمبلی نے پورا ایک سال جنرل ضیاءکے لگائے مارشل لاءکو آئینی تحفظ فراہم کرنے میں صرف کر دیا۔ ایسا کرتے ہوئے ان آئینی اور قانونی ترامیم کو زیر غور لانے کی جرات ہی نہ دکھائی جو فوجی آمر نے متعارف کروائی تھیں۔ اس حقیقت کااحساس کئے بغیر کہ ایسی کئی ترامیم نے آئین کی پارلیمانی روح کو ہمیشہ کےلئے کچل کررکھ دیا تھا۔ آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 میں ”صادق اور امین“ جیسے مقدس الفاظ کا اضافہ بھی ایسی ہی ایک ترمیم تھی۔ ان الفاظ کے ہوتے ہوئے ذرا سی کوشش کے بعد کسی بھی رکن اسمبلی کو بآسانی نااہل قرار دلوایا جاسکتا ہے۔

حیران کن حقیقت یہ بھی ہے کہ 1985ء کی اسمبلی کے معرضِ وجود میں آنے کے چند ہی ہفتوں بعد 62/63 کے حوالے سے ایک اہم ترین مقدمہ ہمارے سامنے آگیا تھا۔ جہلم سے قومی اسمبلی کی نشست پر راجہ افضل اور چودھری الطاف حسین کے درمیان مقابلہ ہوا تھا۔ راجہ افضل جیت گئے۔ چودھری الطاف مگر ان کے خلاف عدالت میں چلے گئے۔ شریف الدین پیرزادہ نے انہیں قانونی معاونت فراہم کی۔ چند پیشیوں کے بعد مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے بالآخر ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ راجہ افضل ان کے خلاف دائر ہوئی چند FIRs کی بنیاد پر ایسے کردار کے حامل نظر نہیں آتے جو آئین میں ”صادق اور امین“ کے لئے طے ہوئے معیار پر پورا اترتا ہو۔ انہیں قومی اسمبلی میں بیٹھنے کے لئے نااہل قرار دے دیا گیا اور فیصلہ یہ بھی ہوا کہ ان کی نااہلی کے بعد چودھری الطاف حسین جہلم سے نمائندہ اسمبلی ہونے کے اہل ہیں اور وہ اس عہدے کا حلف لے کر قومی اسمبلی میں بیٹھیں۔

چودھری الطاف حسین اس فیصلے کے بعد اپنے عہدے کا حلف اٹھانے فاتحانہ انداز میں قومی اسمبلی آئے تو میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی۔ ان دنوں قومی اسمبلی کے اجلاس اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے لئے بنائی عمارت میں ہوا کرتے تھے۔ میں انگریزی روزنامہ ”مسلم“ کے لئے پریس گیلری لکھا کرتا تھا اور خبر ڈھونڈنے کے معاملے میں کافی جنونی شمار ہوتا تھا۔ چودھری الطاف حسین سے تعارف کے بعد میں چند سینئر ساتھیوں کے ہمراہ ان کے ساتھ کیفے ٹیریا میں بیٹھا اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے کا انتظار کرتا رہا۔ اجلاس مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر شروع ہوکر ہی نہیں دے رہا تھا۔ فضا بہت پراسرار محسوس ہورہی تھی۔ مجھے مگر جبلی طورپر احساس ہوا کہ کہیں کوئی بہت بڑی خبر بن رہی ہے۔ کیفے ٹیریا سے کھسک کر اس کی تلا ش میں مصروف ہوگیا۔

تھوڑی بھاگ دوڑکے بعد معلوم ہوا کہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو قائل کر دیا گیا ہے کہ شریف الدین پیرزادہ کی معاونت سے راجہ افضل کو Deseat کرنے کا فیصلہ ”کروایا“ گیا ہے۔ جنرل ضیاءاور ان کے حواری یہ محسوس کررہے تھے کہ قومی اسمبلی کے اراکین کی اکثریت وزیراعظم محمد خان جونیجو کے گرد جمع ہوکر فوجی آمر کے پرکاٹنے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ راجہ افضل کی 62/63 کے اطلاق کے ذریعے نااہلی کے بعد ایک Precedent سیٹ ہو جائے گا۔ ”ایجنسیاں“ بغاوت کے خواب دیکھنے والے اراکین پالیمان کے خلاف مواد جمع کرنا شروع ہو جائیں گی۔ یہ مواد جمع کرنے کے بعد انہیں خاموشی سے دکھا دیا جائے گا۔ اس کے باوجود وہ بندے کے پتر نہ بنے تو انہیں عدالتی عمل کے ذریعے آئین کے آرٹیکل62/63 کو استعمال کرتے ہوئے نااہل کروا کر گھر بھیج دیا جائے گا۔

وزیر اعظم جونیجو اس سازشی تھیوری پر ایمان لے آئے تو فیصلہ ہوا کہ فوری طورپر سپریم کورٹ سے رجوع کرکے راجہ افضل کے حق میں Stay حاصل کیا جائے۔ اس Stay کے آنے تک قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد نہیں ہوگا تاکہ چودھری الطاف اجلاس شروع ہوتے ہی ضوابط کے تحت بحیثیت رکن اسمبلی اپنے عہدے کا حلف نہ اٹھاپائیں۔ غالباً تین یا چار گھنٹے کی تگ ودو کے بعد سپریم کورٹ سے راجہ افضل کے حق میں Stay Order آگیا اور اسمبلی کا اجلاس شروع ہوگیا۔

1985 کے غیر جماعتی انتخاب کے ذریعے قائم ہوئی اسمبلی اس واقعہ کے بعد بھی دو سال تک کام کرتی رہی۔ کسی ایک رکن اسمبلی کو مگر خیال ہی نہ آیا کہ آرٹیکل62/63 میں ”صادق اور امین“ کے لئے طے ہوئے معیار اپنی جگہ موجود ہیں۔ انہیں استعمال کرنے کی آنے والے سالوں میں کسی کو بھی ضرورت محسوس ہو سکتی ہے۔

بالآخر یہ اطلاق 2017ء میں نواز شریف کے خلاف ہوگیا۔ اس کے بعد سے وہ ”مجھے کیوں نکالا“ کی دہائی دیتے پائے جارہے ہیں۔ یہ سوال مگر مجھ ایسے رپورٹر کے ذہن میں ہر وقت کھٹکتا ہے کہ آئین کو ”آمروں کے متعارف کردہ گند سے پاک“ کرنے والی نام نہاد 18 ویں ترمیم تیار کرتے وقت 62/63 میں موجود Traps پر توجہ کیوں نہیں دی گئی تھی۔

عمران خان صاحب اور ان کی تحریک انصاف نواز شریف کی 62/63 کے اطلاق کے ذریعے نااہلی پر بہت شاداں تھے۔ ایک لفظ مگر ہوتا ہے مکافاتِ عمل۔ اس تصور کا عملی اطلاق ہمیں نواز شریف کی نااہلی کے بعد تحریک انصاف کے اہم ترین رہ نما جہانگیر ترین کی 62/63 ہی کی بدولت نااہلی کی صورت دیکھنے کو ملا۔ سوال مگر اب یہ اٹھا ہے کہ مذکورہ شقوں کے اطلاق کے بغیر نااہل ہوا شخص تاحیات اسمبلی کی رکنیت کے لئے نااہل رہے گا یا اس کی نااہلی کی مدت کو کچھ عرصے تک محدود کیا جائے گا۔

کتابوں اور روایات میں طے شدہ ”پارلیمانی جمہوریت“ کے اصولوں کی روشنی میں اس سوال کا جواب صرف منتخب پارلیمان ہی سے کسی آئینی ترمیم کے ذریعے آنا چاہیے۔ ہمارے اراکینِ پارلیمان مگر اپنے اختیار اور ذمہ داریوں سے قطعاً غافل ہیں۔ اندھی نفرت اور محبت میں تقسیم ہوئے قبائلی ذہن جنہیں ”شریک“ کی دیوار ہر صورت گرانا ہے خواہ وہ خود اس کے ملبے تلے دب جائیں۔

عمران خان نے نواز شریف کی دیوار گرائی تو جہانگیر ترین ملبے تلے آگئے۔ مجھے یقین ہے کہ آئندہ بھی 62/63 کے ہتھوڑے کے ذریعے مستقبل میں بھی ایسی کئی ”دیواریں“ گرتی رہیں گی۔ اندھی نفرتوں میں وحشی ہوئے سیاست دانوں کو مگر ہوش نہیں آئے گی اور خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال۔ ۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ۔ قانون سازی کا فریضہ اور اختیار بھی سپریم کورٹ کو سونپ دیا گیا ہے۔ اگے تیرے بھاگ لچھیے!