1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. FATF، ٹروپس ڈپلومیسی اور ڈاکٹر کسنجرز

FATF، ٹروپس ڈپلومیسی اور ڈاکٹر کسنجرز

اِدھر اُدھر سے اینٹ اور روڑے جمع کرکے ایک دوسرے سے جوڑنے کے بعد میں یہ کالم لکھتا ہوں۔ بنیادی مقصد اس کا اپنے لئے رزق کمانا ہے۔ آپ کی ذہن سازی مقصود نہیں۔ ایمان بھی میرا کافی کمزور ہے۔ منبر پر بیٹھے خطیب کی طرح لہٰذا دھواں دھار بھاشن نہیں دے سکتا۔ ذات کا رپورٹر ہوں۔ صحافتی زندگی کے 20 سے زیادہ برس پاکستان کے دوسرے ملکوں سے تعلقات اور بین الاقوامی اداروں سے روابط کے بارے میں خبریں جمع کرنے میں خرچ کئے ہیں۔ عادتاً ان معاملات پر نگاہ رکھتا ہوں اور اسی باعث اس ماہ کی 15 تاریخ کو ”پاکستان کو واچ لسٹ میں ڈالنے کے انتظامات“ کے عنوان سے ایک کالم لکھ ڈالا تھا۔

یہ کالم پیرس میں Financial Action Task Force (FATF)کا اجلاس شروع ہونے سے 3 روز قبل شائع ہوا تھا۔ اس اجلاس کے شروع ہونے کے دو دن بعد پاکستان کے وزیر خارجہ نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اعلان کر دیا کہ پاکستان کو واچ لسٹ پر ڈالنے کا معاملہ 3 ماہ تک موخر کر دیا گیا ہے۔ یہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی معاملات شاید بہتر ہی رہیں گے کیونکہ پاکستان دنیا میں تنہا نہیں۔ اس کے بھی چند دوست ہیں جو بین الاقوامی اداروں کے ذریعے پاکستان کے لئے مشکلات کھڑی کرنے کی کوشش کرنے والوں کے مقابل سینہ تان کر ڈٹ جاتے ہیں۔

خواجہ آصف کے صرف ایک ٹویٹ کے مقابلے میں ان دنوں اسحاق ڈار کی کرسی پر بیٹھے مفتاح اسماعیل نے بھی ہمیں تسلی دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ذہنوں میں آئی اُلجھنوں کو رفع کرنے کے لئے اہم ترین کردار مگر ہمارے چند ”دفاعی ماہرین“ نے ادا کیا۔ ہمیں خبر دی کہ پاکستان کی FATF کے ہاتھوں بچت "Troop Diplomacy"کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ آپ میں سے اکثر لوگوں کی طرح میں بھی اس اصطلاع کو سمجھ نہیں پایا۔

اصلاحیں گھڑنے میں ہمارے دفاعی تجزیہ کار مگر کافی طبعزاد ہوا کرتے ہیں۔ نت نئی تلمیحات کے ذریعے ہمیں سمجھاتے رہتے ہیں کہ پاکستان عالمی برادری میں ابھی تک محترم گردانا جاتا ہے تو وجہ اس کی ہمارے ”چور لٹیرے سیاستدان نہیں“۔ وزارتِ خارجہ بھی اس ضمن میں ناکارہ ہے۔ ہمارا وقار اور ساکھ برقرار ہیں تو محض عسکری قیادت کی بدولت جو بروقت فیصلے لے کر ہمیں بچا لیتی ہے۔

FATF کے اجلاس سے چند ہی روز قبل پاکستان نے سعودی عرب کی حفاظت اور وہاں کے فوجیوں کو تربیت دینے کے لئے ایک ہزار کے قریب افسروں اور جوانوں کو بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ سعودی عرب اس فیصلے سے خوش ہوگیا۔ غالباً اس نے ہمارے اس فیصلے کے بعد ٹرمپ کو پیغام بھیجا ہوگا کہ ”بندے دا پتر بن“۔ وہ بندے کا پتر بننے کو شاید اس لئے بھی مجبور ہوا کہ چین اپنا یار ہے اور اس پہ جان بھی نثار ہے۔ ترکی تو ویسے ہی اپنا جگر ہے۔ ان تینوں ممالک نے باہم مل کر ہمیں FATF سے بچا لیا۔ مبارک سلامت۔

Troops Diplomacyکے قصیدے لکھتے ہمارے ڈاکٹر کسنجروں نے اگرچہ یہ جاننے کا تردد ہی نہ کیا کہ سعودی عرب FATFکا باقاعدہ رکن ہی نہیں۔ اسے وہاں Observerکی حیثیت ضرور حاصل ہے۔ سعودی عرب سمیت خلیج کے تمام ممالک کی جو تنظیم GCC کے نام سے کام کر رہی ہے اسے EU کی طرح FATF کی مستقل رکنیت دی گئی ہے۔

خواجہ آصف کے ٹویٹ کے بعدبھی مگر امریکی وزارتِ خارجہ کی ترجمان کیمروں کے روبرو مستقل یہ دعویٰ کرتی رہی کہ FATF کے اجلاس کے اختتام کا انتظار کیا جائے۔ دریں اثناءبھارت جو FATF کا باقاعدہ رکن ہے تلملا اُٹھا۔ امریکہ سے شکایت لگائی کہ FATF کی ”اندرونی کہانی“ پاکستان کے وزیر خارجہ نے وقت سے پہلے بیان کردی۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے بھی اس ضمن میں روابط ہوئے۔ چین کو رام کرنا مگر اشد ضروری تھا اور شاید اس پر کسی نہ کسی صورت اثرانداز ہونے میں بھارت کامیاب ہوگیا ہے۔

اپنی ”کامیابی“ کی مگر بھارتی سفارت کار بھی ضرورت سے زیادہ بڑھک لگا بیٹھے۔ بھارتی ریاست کے ”ذرائع“ نے اپنے اخبارات اور ٹی وی سکرینوں کے لئے جو ”کسنجر“ پال رکھے ہیں۔ ان کے ذریعے گزرے 23 فروری کی صبح یہ بات پھیلا دی گئی کہ پاکستان کو ”گرے لسٹ“ پر ڈالنے کا فیصلہ ہوگیا ہے۔ اس فیصلے کی مخالفت ترکی کے علاوہ کسی اور رکن ملک نے نہیں کی ہے۔

پاکستان کے سوشل میڈیا اور ٹی وی سکرینوں پر متحرک ماہرین برائے دفاعی اور خارجہ امور اس دعوے سے بہت پریشان ہوگئے۔ ہمارے ریاستی ”ذرائع“ اس ضمن میں البتہ خاموش رہے۔ ان کی خاموشی نے سیاپا فروشوں کو مزید پریشان کر دیا۔ بالآخر جمعہ کی رات FATFکا اعلامیہ جاری ہوگیا۔ پاکستان کا اس میں ذکر تک نہیں تھا۔ صرف مفتاح اسماعیل کی بدولت خبر ہم تک یہ پہنچی کہ تین ماہ بعد ہمیں واچ لسٹ میں ڈال دیا جائے گا۔ خواجہ آصف کم از کم اس تناظر میں درست ثابت ہوئے۔

محض ایک رپورٹر کی حیثیت میں جاننا میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ حتمی فیصلہ کیا ہوا ہے۔ اس ضمن میں کوئی ایک فریق بھی پورا سچ بیان نہیں کر رہا۔ بڑھکیں ہیں۔ ٹامک ٹوئیاں ہیں۔ اپنی پسند کے بیانیے ہیں۔ میں نے بھی حق گوئی کا ٹھیکہ نہیں اٹھارکھا۔ رپورٹنگ ویسے بھی مشقت طلب دھندا ہے۔ اس دھندے سے عرصہ ہوا ریٹائر ہوچکا ہوں۔ خواہ مخواہ کی اذیت کیوں اپنے سرلوں۔

15 فروری کی صبح چھپنے والا کالم لکھنے کے بعد مگر ایک حوالے سے یہ میری ذمہ داری بنتی ہے کہ کسی طرح معلوم کروں کہ بالآخر ہوا کیا۔ اس ذمہ داری کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہاتھ پاﺅں ہلائے تو خبر یہ ملی ہے کہ FATF نے ہمیں اپنی واچ لسٹ پر دوبارہ ڈال دیا ہے۔ اس کا باقاعدہ اعلان اس لئے نہیں ہوا کہ آئندہ آنے والے تین مہینوں کے دوران FATFوالے اس امر کاجائزہ لیں گے کہ منی لانڈرنگ وغیرہ کے خلاف اٹھائے ہمارے اقدامات موثر طریقے سے کام کررہے ہیں یا نہیں۔ اس کی تسلی نہ ہوئی تو جون میں ہمیں Gray (جس کا آسان ترجمہ”مشتبہ“ ہوسکتا ہے) قرار دے دیا جائے گا۔

FATFکی Gray لسٹ پر ہونا ہمارے لئے کوئی نہیں بات نہیں ہوگی۔ 2012ء سے 2015ء تک بھی ہم اس لسٹ پر رہے ہیں۔ ان تینوں برسوں میں ہمارے گلشن کا کاروبار کسی نہ کسی صورت چلتا رہا۔ بین الاقوامی منڈی میں Bonds بیچ کر ہم نے زرمبادلہ اکٹھا کیا۔ IMFکا پروگرام بھی ملا۔ ان تین برسوں میں لیکن نواز شریف اور اسحاق ڈار نے باہم مل کر چند اقدامات اٹھائے جن کی بدولت وہ ”مودی کے یار“ کہلائے مگر ہمارا نام FATF کی واچ لسٹ سے ہٹا دیا گیا۔

”مودی کا یار“ والی تہمت سے بچنے کے لئے شاہد خاقان عباسی اب ویسے اقدامات نہ لے پائیں گے۔ ویسے بھی ان کی حکومت کے پلے اب کچھ نہیں رہا۔ 30 مئی کو اس حکومت کی آئینی مدت ختم ہوجائے گی۔ اس کے بعد نئے انتخابات ہونا ہیں۔ ”مودی کا یار“ کی تہمت کے ساتھ نئے انتخابات لڑنا کافی مشکل ہوجائے گا۔ ترجیح لہٰذا اس حکومت کی صرف یہ ہوگی کہ نیویں نیویں رہ کر ڈنگ ٹپایا جائے۔ جون میں جو نگراں حکومت ہوگی وہ جانے اور FATF۔

یہ نگراں حکومت اگر ٹیکنوکریٹ ہوئی اور انتخابات وطن کو سنوارنے کی خاطر لمبے عرصے کو ٹالنے پر تیار تو ہم نہ صرف Gray بلکہ FATF کی Black لسٹ پر چلے جائیں گے۔ ایران اور شمالی کوریا اس لسٹ پر پہلے سے موجود ہیں۔ ان کی قربت میں بیٹھے شاید ہم اپنی قومی حمیت کے حوالے سے زیادہ فخر مند محسوس کریں۔

یہ فخر مندی بہت خوشگوار ہوگی اگر چین ہمارے ساتھ کھڑا ہوجائے۔ چین کی مگر اپنی بھی کچھ ترجیحات ہیں۔ وہ خود کو عالمی طورپر ایک ”ذمہ دار سپرطاقت“ ثابت کرنے کو بے چین ہے۔ اسی لئے FATF کے اجلاس میں بالآخر پاکستان کے بارے میں اپنا رویہ تبدیل کرنے کو مجبور ہوا۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کا سیکرٹریFATF کے اجلاس کے بعد دو روز تک چین کے دارالحکومت میں موجود تھا۔ شاید FATFکے حوالے سے چین کا رویہ تبدیل ہونے کا شکریہ ادا کرنے گیا ہوگا۔