1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. کارگل سے کُو تک

کارگل سے کُو تک

اس کالم کے باقاعدہ قاری میری تکرار سے اب تک جان چکے ہوں گے کہ جنگیں اس صدی میں Hybrid اور 5 th Generation ہوچکی ہیں۔ میڈیا اس نوع کی جنگوں میں اتنا ہی اہم ہتھیار ہے جیسے مثال کے طورپر ڈرون طیارہ۔

اس طیارے کا پائلٹ نہیں ہوتا۔ اس کے ہدف سے ہزاروں میل دور بیٹھا کوئی شخص اسے Keyboardپر اُنگلیاں چلاتے اورٹی وی سکرینوں پر ابھرتے مناظر پر نگاہ رکھتے ہوئے محو پرواز رکھتا ہے۔ ہدف صاف طورپر نظر آجائے تو ایک بٹن دباکر اسے بغیر پائلٹ کے اُڑائے طیارے میں موجود میزائل چلاکر تباہ کردیا جاتا ہے۔ اس سارے عمل کی بنیاد مختلف علوم میں ہوئی بے تحاشہ دریافتوں پرمبنی ٹیکنالوجی ہے جس میں مصنوعی ذہن کا استعمال بھی شامل ہے۔

Hybrid جنگوں کے دور میں میڈیا کو ذہن سازی کی پیچیدہ سائنس کو سمجھے بغیر دشمن سے محفوظ رہنے یا اسے مکمل طورپر زچ کرنے کے لئے استعمال کیا ہی نہیں جاسکتا۔ صحافی کو لہذا اب بہت ہی مخصوص نوعیت کی مہارت درکار ہے۔ محض زبان وبیان سے جڑے معاملات سے شناسائی کافی نہیں۔ وطنِ عزیز کی مشکل مگر یہ ہے کہ یہاں مجھ ایسے لوگ منہ اٹھاکر صحافت کے شعبے میں آگئے۔ جو ذہن میں آیا ترنت لکھ اور بول دیا۔ اس حقیقت پر کبھی غور ہی نہیں کیا کہ Hybrid جنگ کے تقاضوں کو سمجھے بنا استعمال ہوئے الفاظ عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ انہیں دشمن کے پھیلائے پراپیگنڈے کا شکار بنادیتے ہیں۔

پریشان کن حقیقت یہ بھی ہے کہ Hybrid جنگ کے دنوں میں درکار مہارت حاصل کئے بغیر مجھ ایسے صحافی انٹ شنٹ بولے چلے جارہے ہیں۔ عمر کے اس حصے میں پہنچ گئے ہیں جہاں ریٹائرمنٹ درکار ہوتی ہے مگر تنخواہ اور شہرت کے لالچ میں جہالت پھیلانے سے باز نہیں آرہے۔ صد شکر کہ ہماری ریاست کی نظریاتی سرحدوں کے نگہبان خبردار ہوچکے ہیں۔ کالموں پر نگاہ رکھتے ہیں اور عوام کو گمراہ کن خیالات سے محفوظ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔

ان ہی ایام میں لیکن چند ہی روز قبل محترمہ نسیم زہرہ صاحبہ کی برسوں کی تحقیق کی بدولت تیار ہوئی ایک کتاب شائع ہوگئی ہے۔ اس کا عنوان ہے:"From Kargil to the Coup"۔ Coup درحقیقت غلط العام ہے۔ پورا لفظ Coup D'etat ہے۔ یہ فرانسیسی زبان سے آیا ہے۔ Coup اس زبان میں گھونسے کو کہتے ہیں -مکا- مثال کے طورپر وہ مکا جو قائد ملت لیاقت علی خان نے بطور وزیر اعظم پاکستان بھارت کو ایک جلسہ عام میں دکھایا تھا۔ یہ ریاستی مکا مگر ہمارے ازلی دشمن کے خلاف پاکستان کے پہلے وزیر اعظم استعمال نہ کر پائے۔ انہیں راولپنڈی کے جلسہ عام میں گولی مارکر شہید کردیا گیا۔ سازشی کہانیاں پھیلانے والوں کا اصرار ہے کہ لیاقت علی خان کے خلاف یہ گولی ہماری ریاست کے دائمی اداروں میں موجود چند سازشی عناصر نے چلوائی تھی۔ تحقیقات اس قتل کی مگر ہو نہ پائیں۔ قاتل کو جلسے ہی میں گولی سے ہلاک کردیا گیا تھا اور بعدازاں اس قتل کی تحقیق پر مامور افراد حساس دستاویزات سمیت طیارے کے ایک حادثے کا شکار ہوگئے۔

بہرحال Coup کا مطلب مکاہوتا ہے۔ D'etat ریاست کو کہتے ہیں۔ انگریزی میں The State۔ Coup D'etat وہ مکا ہے جو ریاست ہی کا ایک طاقت ور ادارہ کسی حکومت کو فارغ کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ عام فہم زبان میں اسے فوجی بغاوت کہا جاتاتھا۔

1958 کی اکتوبر میں ہمارے ہاں سکندر مرزا اور جنرل ایو ب خان نے ریاست کو پہلا مکا لگایا۔ اس وقت کے چیف جسٹس منیر نے لیکن اس Coupکو فوجی بغاوت ٹھہرانے سے انکار کردیا۔ نظریہ ضرورت کا اطلاق کرتے ہوئے اس Coup کو بلکہ ریاست بچانے والا انقلاب کہا۔ میرے بچپن میں اس انقلاب کو احترام وشادمانی سے یاد کرنے کی خاطر سکول سے چھٹی ہوا کرتی تھی۔ کیلنڈر میں اس چھٹی کو اکتوبر انقلاب کی سال گرہ کہا جاتا تھا۔

محترمہ نسیم زہرہ صاحبہ لیکن مجھے شبہ ہے کہ اکتوبر1999 والے Coup کو فوجی بغاوت ہی شمار کرتی ہیں۔ اکتوبر سے یاد آیا کہ کسی ستارہ شناس کو یہ دریافت بھی کرنا چاہیے کہ ایوب خان یا پرویز مشرف جیسے دیدہ ور اس ملک کی تقدیر سنوارنے کے لئے اکتوبر کا مہینہ ہی کیوں چنتے ہیں۔ شیکسپیئر نے ایسی ہل جل کے لئے Ides of March کی ترکیب استعمال کی تھی۔ رومن تاریخ میں مارچ لہذا اہم ترین مہینہ رہا۔ ہمارے ہاں Ides مگر اکتوبر میں کیوں ہوتی ہیں۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ضروری ہے۔ ستاروں کی چالوں سے لیکن میں واقف نہیں۔ ویسے بھی شاعرملت کی مہربانی سے بچپن ہی میں جان لیا تھا کہ ”ستارہ کیا میری تقریر کی خبردے گا“ کیونکہ وہ تو خود گردشِ افلاک کا محتاج ہے۔

بات مگر From Kargil to the Coup کی ہورہی تھی۔ یہ اس کتاب کا عنوان ہے جسے محترمہ نسیم زہرہ صاحبہ نے حال ہی میں کئی برسوں کی تحقیق کے بعد چھپوایا ہے۔ یہاں تک پہنچنے کے بعد مجھے یہ اعتراف بھی کرنا ہوگا کہ اس کتاب کی مصنفہ کو محترمہ نسیم زہرہ صاحبہ لکھتے ہوئے مجھے بہت دقت پیش آرہی ہے۔

خدارا یہ تصور نہ کرلیجئے گا کہ میں خدانخواستہ ان کی عزت نہیں کرتا۔ مسئلہ فقط اتنا ہے کہ آپ کو ٹی وی سکرینوں پر بہت سنجیدہ موضوعات پر ضرورت سے زیادہ مہذب لہجے میں گفتگو کرنے والی جو خاتون نظر آتی ہیں مجھ سے عمر میں ذرا چھوٹی ہیں۔ 1970 کی دہائی کے آخری برسوں میں وہ قائداعظم یونیورسٹی کی طالب علم رہیں۔ بین الاقوامی امور کی طالبہ ہوتے ہوئے وہ اس شہر کی ادبی اور ثقافتی تقریبات میں باقاعدگی سے شریک ہوتیں۔ بہت خوش شکل مگر رُعب دار نظر آتی تھیں۔ میں خوف کے مارے اپنا تعارف کروانے کی جرات بھی نہ کرپایا۔ صحافت کی بدولت مگر بتدریج ہماری ایک دوسرے سے شناسائی ہوگئی اور بالآخر دریافت یہ بھی ہوا کہ وہ میرے لاہور کے ایک مشہور خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ بعدازاں یہ بھی ہوا کہ ہم دونوں کے بے تحاشہ مشترکہ رشتے اور واسطے بھی عیاں ہونا شروع ہوگئے۔ ہم دونوں اب گویا ایک ہی خاندان کے رکن ہیں۔

رشتوں کی گہرائی کی بدولت البتہ وہ میرے لئے گھر کی مرغی بھی ہوگئی ہے۔ اسے دیکھتے ہی میں مسخرہ بن جاتا ہوں۔ تحقیق اور سوچ بچار کی چونکہ مجھے عادت نہیں اس لئے نسیم زہرہ کے علم سے خوف کھاتے ہوئے ہمیشہ ہنسی مذاق سے کام چلایا۔ وہ اپنے ہاتھ کی ذرا سی جنبش سے میرے پھکڑپن کو بڑے دل کے ساتھ نظرانداز کردیتی ہے۔

From Kargil to the Coup میں نسیم زہرہ نے جنرل پرویز مشرف کے اکتوبر1999 والے ”مکے“ کو کارگل کے پہاڑوں پر ہوئی جنگ کا شاخسانہ ثابت کیا ہے۔ ٹھوس دستاویزات کے بغور مطالعے اور کارگل جنگ سے متعلق بے تحاشہ فوجی افسران سے طویل انٹرویوز کے بعد ہمیں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ 1984 میں سیاچن پر بھارتی قبضے کے بعد سے ہمارے عسکری حلقوں میں مسلسل کارگل ایسا جواب دینے کی تڑپ کیوں موجود رہی ہے۔ جنگ مگر میدانِ جنگ تک محدود نہیں رہتی۔ اسے جائز ٹھہرانے کے لئے مناسب بین لاقوامی ماحول اور دلائل بھی درکار ہوتے ہیں۔ کارگل کے محاذ تک محدود اذہان اس حقیقت کو اپنی حکمت عملی کا حصہ نہ بناپائے۔ محض Tactic پر توجہ دیتے رہے اور نتیجاََ سیاچن تو آزاد نہ ہوا اکتوبر12، 1999 ہوگیا۔

نسیم زہرہ نے مہربان ہوکر مجھے وہ کتاب بھیجی۔ جمعہ کی سہ پہرملی تو رات گئے تک پڑھتا رہا۔ اس کا عنوان دیکھتے ہی مجھے دھڑکا لگا کہ کہیں اس کتاب کی اشاعت کو ”مجھے کیوں نکالا؟“ کے سوال سے جڑے شوروغوغا کی ”ایک اور قسط“ نہ تصور کرلیا جائے۔ ذاتی طورپر لیکن مجھے علم ہے کہ نسیم زہرہ نے اس کتاب کے لئے تحقیق کا عمل کارگل جنگ کے دوران ہی شروع کردیا تھا۔ 2005 کے بعد سے بلکہ جب بھی میری اس سے ملاقات ہوئی میں ”کہاںہے تمہاری کتاب؟“ کے سوال سے اسے اپنے پھکڑپن کی زدمیں لانے کا آغاز کردیتا۔ مجھے یقینا بہت خوشی ہوئی کہ دیر ہی سے سہی اس کی کتاب آگئی ہے اور یہ ایک چشم کشا کتاب ہے جس میں سنجیدہ افراد کے لئے بہت سے غور طلب حقائق بیان ہوئے ہیں۔