1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. عمران خان کو مبارک ہو!

عمران خان کو مبارک ہو!

عمران خان صاحب کو مباک ہو۔ ان کا انجام اصغر خان جیسا نہیں ہوا۔ ان کی 22 سالہ محنت ویکسوئی بارآور ثابت ہوئی۔ نواز شریف کو ریاست کے ایک اہم ترین ستون نے انتخابی میدان سے باہر رکھا۔ ان کی جگہ لینے والے شہباز شریف ”اسی تنخواہ“ پر کام کرنے کو آمادہ رہے۔ کراچی اور پشاور کو ”لاہور جیسا“ بنانے کا ارادہ باندھ کر اکھاڑے میں اترے اور بالآخر اسی انجام سے دو چار ہوئے جو دوکشتیوں میں سوار رہنے کو بضد افراد کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔

نواز شریف کا ووٹ بینک مگر اپنی جگہ قائم رہا۔ ان کے نام سے منسوب جماعت نے تحریک انصاف کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہونے دی۔ خیبرپختونخواہ اور کراچی سے آئے حیران کن نتائج بھی اس ضمن میں کام نہیں آئے۔ جہانگیر ترین کے جہاز کے ذریعے آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے افراد کو بنی گالہ پہنچا کر عمران خان کو وزیر اعظم کے عہدے کے لئے درکار اکثریت بہم پہنچائی جارہی ہے۔

پرانے پاکستان کی بھول بھلیوں میں گم ہوئے مجھ ایسے افراد کو بہت عرصے تک یہ خدشہ لاحق رہا کہ عمران خان صاحب کا انجام اصغر خان جیسا ہوگا۔ انتخابی مہم شروع ہونے سے چند ماہ قبل مگر ہوش آگئی۔ ایک ہفتہ قبل آپ سے رخصت لیتے ہوئے میں نے خلافتِ عثمانیہ کی متعارف کردہ ”دریں ریاست“ کا ذکر کیا تھا۔ عدلیہ اور عسکری قیادت کے ساتھ نواز شریف کی مشکلات بھی یاد دلائی تھیں۔ ہمارے موقع شناس Electables کی بے پناہ اکثریت ان مشکلات کو جبلی طورپر بہت پہلے جان چکی تھی۔ بالآخر تحریک انصاف کا ٹکٹ لیا اور عمران خان کی ”ہوا“ بندھ گئی۔

ووٹروں کی بے پناہ تعداد نے بھی یہ فیصلہ کرلیا کہ 22 سال سے تبدیلی کی رٹ لگانے والے رہ نما کو ”ایک چانس“ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ خلقِ خدا ویسے ہی استحکام کی خواہاں ہوتی ہے۔ اسے گماں ہوا کہ عمران خان کی صورت میں ایسا وزیر اعظم نصیب ہوسکتا ہے جو ریاست کے دائمی اداروں کو ناراض نہ کرے اور اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے مناسب وقت اور ماحول حاصل کرلے۔

مولانا فضل الرحمن جیسے زیرک سیاست دان مگر طیش کے عالم میں ”استحکام“ کی اس خواہش کو سمجھ نہ پائے۔ اصرار کرتے رہے کہ مارچ 1977 کی طرح تحریک انصاف مخالف جماعتوں کی ٹکٹ سے کامیاب ہوئے افراد نو منتخب شدہ قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے سے انکار کردیں۔ عمران خان صاحب ہی کے متعارف کردہ دھرنے کے ذریعے نئے انتخابات کی راہ نکالی جائے۔

پیپلز پارٹی کا سندھ پر قبضہ 25 جولائی 2018 کے بعد بھی برقرار ہے۔ نئے انتخابات بھی اسے پنجاب اور وفاق میں فی الحال کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ وہ جائز بنیادوں پر تیار نہیں ہوئی۔ شہباز شریف اور ان کے ہم نواﺅں کو بھی پنجاب میں حکومت بنانے کی گنجائش نظر آرہی تھی۔ نام نہاد ”سسٹم“ کو Derail کرنے کو تیار نہیں ہوئے۔ مارچ 1977 لہذا دہرایا نہیں جاسکا۔

مولانا فضل الرحمن اور اسفند یار ولی کو یہ حقیقت بھی یاد نہیں رہی کہ مارچ 1977 اس لئے ممکن ہوا تھا کیونکہ اس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو پانچ سال تک حکمران رہے تھے۔ صنعتوں کو قومیانے ان دنوں کے سرحد اور بلوچستان کی منتخب حکومتوں کو برطرف کرنے اور اپوزیشن کے خلاف آمرانہ انداز اختیار کرنے کی وجہ سے بھٹو صاحب نے ہمارے بہت ہی طاقت ور طبقات اور آبادی کے ایک موثر حصے کو اپنادشمن بنالیا تھا۔ عمران خان ابھی اقتدار میںنہیں آئے۔ استحکام کی اجتماعی اور جبلی خواہش انہیں وقت دینے کو تیار ہے۔ تحریک انصاف مخالف جماعتوں کو لہذا قومی اسمبلی میں جانا ہوگا۔ خان صاحب کو وزیر اعظم کے منصب پر بٹھانے کے عمل میں حصہ لینا ہوگا۔

خان صاحب کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے روشن امکانات ہی کے سبب تحریک انصاف کو پنجاب میں حکومت سازی کے لئے بھی آسانیاں نصیب ہوں گی۔ شہباز شریف کی آنیاں جانیاں اس ضمن میں بھی کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہیں۔ تخت لہور پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لئے تاہم وہ اپنی ہی جماعت کے ان مشتعل افراد کو حوصلہ دینے کے لئے آواز بلند کرنے کی جرات بھی نہیں دکھاپائے جو مانسہرہ اور مری میں سڑکیں بند کئے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کررہے تھے۔ یہ مطالبہ کرتے ہوئے چند ناخوش گوار واقعات بھی ہوئے ہیں۔ کئی مہینوں سے ”ذمہ دار“ ہوا میڈیا اگرچہ ان واقعات کی رپورٹنگ سے گریزاختیار کئے ہوئے ہے۔ 25 جولائی کے روزہوئے انتخابات کے بارے میں Feel Good ماحول برقرار رکھنا اس کی مجبوری ہے۔ رسم دنیا سے کہیں زیادہ اہم میڈیا کی دُکان چلائے رکھنا ہے۔ اخبار یاٹی وی چینل اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے وہ انداز اختیار کرہی نہیں سکتا جو ”حق گو“ افراد سوشل میڈیا کی بددلت اپنائے ہوئے ہیں۔ ٹویٹر اور فیس بک بھی مگر Taken for Grantedلئے نہیں جاسکتے۔ ہمارے دوست چین نے اس ”بدعت“ کے بغیر بھی جینا اور ترقی کرنا سیکھ لیا ہے۔ ایران بھی ان دونوں Appsکے بغیر چین محسوس کرتا نظر آرہا ہے۔ ربّ کریم سے فریاد کریں کہ ہمارے ہاں بھڑاس نکالنے کے یہ ذرائع قائم رہیں۔ سمارٹ فونز کی دنیا آباد رہے۔

تحریک انصاف کی کامیابی سے مشتعل ہوئے افراد کو تاہم یہ سمجھانا ضروری ہوگیا ہے کہ ”اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا“۔ انتخابی عمل ختم ہوا۔ احتساب بیورو کے دوبارہ متحرک ہونے کا وقت آگیا۔ احد چیمہ کو گرفتار ہوئے کئی ماہ گزر چکے ہیں۔ پنجاب حکومت کی جانب سے صاف پانی فراہم کرنے کے منصوبوں میں ہوئے مبینہ گھپلوں کے بارے میں کافی تفتیش ہوچکی۔ چند سوالات توانائی کے منصوبوں کے بارے میں بھی اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ آشیانہ سکیم بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ شہباز شریف کو ان منصوبوں کے حوالے سے اُٹھے سوالوں کے جواب شاید اب قومی یا پنجاب اسمبلی میں نہیں نیب کے کسی تفتیشی کمرے میں دینا ہوں گے۔ وہ سین سے چند روز کے لئے غائب ہوئے تو ”وقتی“ طورپر کسی اور ”قائد“ کی ضرورت ہوگی۔ شاہد خاقان عباسی قومی اسمبلی تک پہنچ نہیں پائے۔ خواجہ آصف اور احسن اقبال کامیاب ہوگئے ہیں۔ احسن اقبال کے خلاف توہین عدالت کا الزام ہے۔ شاید توجہ خواجہ آصف کی جانب مبذول کرنا پڑے۔ پنجاب کو حمزہ شہباز شریف کے حوالے کرنا ہوگا۔ انہیں ”لیڈر“ بننے میں لیکن وقت درکار ہے۔ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی جماعت کے لئے وقت کڑا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کو مگر اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکے گا۔ احسن اقبال کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ان کے ایماءپر نہیں ہوئی۔ نیب ”خودمختار“ ہے اور خان صاحب نے اس ”خودمختاری“ کو مزید مستحکم کرنے کا وعدہ کررکھا ہے۔ کسی موثر رہ نما کے بغیر غضب ناک ہوا نوازشریف کا ووٹ بینک اپنے طیش کو کوئی عملی صورت نہیں دے پائے گا۔ ایک ذرا نہیں بلکہ بہت ساصبر کیونکہ فریاد کے دن لمبے ہیں۔