ربّ کریم کے فضل سے پاکستان اسلامی ہونے کے علاوہ ایک جمہوری مملکت بھی ہے۔ ریاستی اور حکومتی انتظام اس کا ایک باقاعدہ طورپر لکھے ہوئے آئین کے مطابق چلایا جاتا ہے۔ اس آئین میں واضح طورپر لکھ دیا گیا ہے کہ صاف، شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کروانا صرف الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔
ہمارے آئین میں یہ بھی طے کردیا گیا ہے کہ اگر کوئی حکومت اپنی پانچ سالہ انتخابی مدت پورے کرلے تو 60 دنوں کے اندر نئی منتخب حکومت کے قیام کو یقینی بنانے کے لئے انتخابات کروانا ضروری ہوں گے۔ یہ مدت کسی وجہ سے مکمل نہ ہوپائے تو بھی 90 دنوں میں نئے انتخابات کروانا لازمی ہوگا۔
راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے مگر ایک بقراطِ عصر ہیں۔ ”اندر“ کی ساری خبریں کسی بھی پھنے خان شمار ہوتے صحافی سے مہینوں پہلے ان تک پہنچ جاتی ہیں۔ بقراط کو جب کوئی خبر مل جائے تو اسے اپنے تک رکھ ہی نہیں پاتے۔ شیخوں سے وابستہ کنجوسی برتنے کے دعوے دار ہونے کے باوجود بقراطِ عصر خبر بانٹنے کے معاملے میں بہت فیاض ہیں۔ کئی سٹار اینکرز کی Ratings کو بھی ون آن ون انٹرویوز کے ذریعے یقینی بناتے ہیں۔ تازہ ترین خبر اب ان کی جانب سے یہ آئی ہے کہ آئندہ انتخابات جولائی 2018 کے کسی دن نہیں ہوپائیں گے۔ اس مرحلے تک ہم شاید اس برس کے نومبر تک ہی پہنچ پائیں گے اور متوقع انتخابات عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان کی معیادِ ملازمت کے دوران ہی ہوں گے۔
بقراطِ عصر کی جانب سے آئی تازہ ترین خبر سے فیض یاب ہونے کے بعد بھی خبروں کی ہوس میں مبتلا رپورٹروں کی تسلی نہ ہوئی۔ سوالات اٹھانا شروع ہوگئے۔ فقط یہ جاننے کے لئے کہ انتخابات کو آئین کی کس شق کے اطلاق کے ذریعے جولائی سے نومبر تک موخر کیا جائے گا۔ مستقبل کے زائچے بنانے والے ”بابوں“ کی طرح بقراطِ عصر نے اس ضمن میں مزید کچھ کہنے سے گریز کیا۔ جلال میں آکر دوٹکے کے رپورٹروں کو یاد دلانا شروع ہوگئے کہ انہوں نے کئی ماہ قبل یہ اعلان کردیا تھا کہ سپریم کورٹ سے نواز شریف کی سیاست کا تابوت برآمد ہوگا۔ وقت نے ان کی پیش گوئی درست ٹھہرائی۔ انتخابات موخر ہونے والی بات بھی لہذا ہوکر رہے گی۔
سیاست کے اسرارورموز کو اپنی قوتِ کشف سے خوب سمجھنے والے بقراطِ عصر ہمارے عمران خان صاحب کے سیاسی گرو بھی ہیں۔ خان صاحب کا خیرخواہ ہوتے ہوئے میری تحریک انصاف کے سربراہ سے فریاد ہے کہ فوری طورپر اپنے گرو سے تنہائی میں ملاقات کریں اور بہت سنجیدگی سے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آئندہ انتخابات کو بروقت کروانے کے بجائے موخر کرنے کی بات کیوں چل رہی ہے۔
میں گنہگار کشف کی نعمت سے قطعاََ محروم ہوں۔ ملکی سیاست کا بطور ایک متحرک رپورٹر کئی دہائیوں تک مشاہدہ ضرور کیا ہے۔ صرف اس مشاہدے کی بنیاد پر بہت یقین سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر انتخابات 2018 کی جولائی میں نہ ہوئے تو ممکنہ التوا کا سب سے زیادہ نقصان تحریک انصاف کو ہوگا۔
موجودہ حالات میں اس جماعت کے پاس پنجاب اورKPK کے تمام حلقوں کے لئے تگڑے امیدوار موجود ہیں۔ ڈاکٹر عامر لیاقت صاحب کی بدولت کراچی کے کئی حلقے بھی اب عمران خان کے منتظر ہیں۔ سنا گیا ہے کہ خان صاحب نے حلقہ بندیوں کے بعد عزیز آباد کے نواح میں ابھرے قومی اسمبلی کے ایک ”نئے“ حلقے کا انتخاب بھی کرلیا ہے جہاں سے وہ خود کو ”چاروں صوبوں کی زنجیر“ ثابت کرنے کے لئے میدان میں اتاریں گے۔ سندھ میں لیاقت جتوئی اور شاہ محمود قریشی چند حلقوں پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ انتخابات بروقت ہوگئے تو تحریک انصاف کے پاس اتنے اراکین موجود ہوں گے جن کی طاقت کے بل بوتے پر وہ وفاق، پنجاب اور KPK میں اپنی حکومت بناسکتی ہے اور سندھ میں PSP سے اشتراک کے ساتھ بنی مخلوط حکومت میں بھی مناسب حصہ وصول کرسکتی ہے۔
مسئلہ صرف بلوچستان کا ہے لیکن وہاں کا احساس محرومی ہمیشہ کے لئے دور کرنے کو بلوچستان عوامی پارٹی میدان میں آچکی ہے۔ اس جماعت کو جنم دینے کی خاطر عمران خان صاحب نے ”دنیا کی سب سے بڑی بیماری“ کے نامزد کردہ سلیم مانڈوی والاکو سینٹ کا ڈپٹی چیئرمین بنوانے والا کڑوا گھونٹ پیا تھا بلوچستان سے نمودار ہوئے صادق سنجرانی کو چیئرمین سینٹ منتخب کروانے کے لئے۔ بلوچ عمران خان صاحب کے اس احسان کو کبھی بھول نہیں پائیں گے۔
موجودہ حالات میںانتخابات کا موخر کئے جانا عمران خان صاحب کو بہت نقصان پہنچائے گا۔ انتخابات کا موخر ہونا ہمارے عوام کی اکثریت ایک ”سازش“ کے طورپر لے گی۔ وہ یہ طے کرلیں گے کہ انتخابات فقط اس وجہ سے موخر ہوئے ہیں کیونکہ نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کو نواز شریف کی تاحیات نااہلی کے باوجود بھی وفاق اور پنجاب میں اکثریتی جماعت کے طورپر آئندہ انتخابات کے ذریعے روکنا ممکن نظر نہیں آرہا۔
4 اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد پیپلز پارٹی کے بارے میں بھی ایسی ہی فضاءموجود تھی۔ بھٹو مخالف جماعتیں لہذا یک جا ہوکر جنرل ضیاءسے یہ فریاد کرنے پر مجبور ہوگئیں کہ انتخابات کو موخر کردیا جائے۔ 1977 کی فوجی مداخلت کے فوری بعد بھی ان جماعتوں نے ”پہلے احتساب اور پھر انتخاب“ کا نعرہ لگایا تھا۔ اس نعرے کا سب سے زیادہ نقصان اصغرخان کی تحریکِ استقلال کو ہوا تھا جو 1978 میں اپنی مقبولیت کے عروج پر تھی۔ انتخابات کا التوا اس جماعت میں انتشار کا بنیادی سبب بن گیا۔ اصغر خان اس کے بعد کئی برسوں تک اپنے ایبٹ آباد والے گھر میں نظر بند رہے۔ جنرل ضیاءان کے غصہ بھرے ہذیان کا مستقل عنوان رہا۔
اب کی بار نواز شریف کی تاحیات نااہلی اور ان سے منسوب پاکستان مسلم لیگ میں موجود انتشار کا فائدہ صرف عمران خان اٹھاسکتے ہیں۔ انتخابات ملتوی ہوئے تو پیغام یہ جائے گا کہ اس ملک میں اقتدار کا کھیل بنانے اور بگاڑنے والی قوتیں عمران خان کو اس ملک کا آئندہ وزیر اعظم نہیں دیکھنا چاہ رہیں۔ ان کی ترجیح Hung پارلیمان ہے۔ شاید اس کویقینی بنانے کے لئے بلوچستان عوامی پارٹی اور صوبہ جنوبی پنجاب محاذ منظر عام پر آئے ہیں۔ شہباز شریف ”برادرِ یوسف“ بننے سے ہچکچاتے رہے تو نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کے کئی تگڑے Electables ”لوٹا“بننے کے بجائے ”آزاد“ رہنے کو ترجیح دیں گے۔ چودھری نثار علی خان کا متعارف کروایا رویہ۔
انتخابات موخر ہوئے تو اس کے نتیجے میں نئے سرے سے ”آزاد“ ہوئے افراد قومی اسمبلی میں لوٹ کر نون کے لاحقے والی جماعت کے ٹکٹ سے منتخب ہونے والے افراد کے ساتھ مل کر ایک طاقت ور پارلیمانی پارٹی بنالیں گے۔ یہ گروہ اگر مخلوط حکومت پر قابض نہ ہوپایا تو اس کے بغیر قائم ہوئی حکومت کو چلنے نہیں دے گا۔ انتشاروہیجان کی کیفیت برقرار رہے گی۔ انتخاب کے بروقت ہونے کے مطالبے پر ڈٹ کر ہی عمران خان اور ان کی جماعت آئندہ انتخابات کے نتیجے میں ایک موثر حکومت بناسکتی ہے۔ بقراطِ عصر کے کشف سے محفوظ رہنے کی لہذا اسے سخت ضرورت ہے۔