1. ہوم
  2. کالمز
  3. نصرت جاوید
  4. اس کے سوا کوئی راستہ نہیں

اس کے سوا کوئی راستہ نہیں

رانا ثناء اللہ کو میں ذاتی طورپر ہرگز نہیں جانتا۔ دو تین برس قبل شاید ایک بار ٹیلی فون پر مختصر سی گفتگو ہوئی تھی لہذا انگریزی والا That's about it۔ موصوف کی شہرت مگر ایک دبنگ شخص کی ہے۔ فیصل آباد کے چند دوستوں کا دعویٰ ہے کہ اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز رانا صاحب نے ختم نبوتﷺ کی تحریک میں حصہ لیتے ہوئے کیا تھا۔ بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی میں چلے گئے اور آخری مقام نواز شریف کے لاحقے سے جڑی مسلم لیگ میں شمولیت ٹھہرا۔

جنرل مشرف کے Take Over کے بعد وہ ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے ان چند افراد میں شامل تھے جنہیں مسلم لیگ کے ’’قدم بڑھائو…‘‘ بڑھک بازوں کو ان کے گھروں میں منیرؔنیازی کے بقول ڈرادینے کے لئے گرفتار کرنے کے بعد بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان کی راجپوتی انا کو زیر کرنے کے لئے مونچھیں اور بھنویں صاف کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ موصوف مگر ڈٹے رہے۔ وفاداری شرطِ استواری کے اصول پر قائم۔

رانا ثناء اللہ ہی کی وجہ سے مسلم لیگ نون پر اکثر یہ الزام لگتا ہے کہ وہ ’’مذہبی انتہاء پسندوں‘‘ کی چاپلوسی کرتی ہے۔ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کو انتہا پسندوں سے محفوظ رکھنے کے لئے فریاد اگرچہ ’’خادم اعلیٰ‘‘ نے کی تھی۔ شاید اس فریاد کی وجہ سے پنجاب کئی دنوں تک خودکش حملوں سے بچارہا۔ مگر تابکہ؟

بہر حال رانا ثناء اللہ کی شہرت ’’مذہبی انتہاء پسندوں‘‘ سے ہر صورت بناکر رکھنے والے شخص کی رہی ہے۔ اب اس شخص کو لیکن ’’علمائ‘‘ پرمبنی ایک بورڈکے سامنے پیش ہونا ہے۔ یہ بورڈ ان سے سوالات جوابات کے بعد طے کرے گا کہ رانا ثناء اللہ راسخ العقیدہ مسلمان ہیں یا نہیں۔

کسی کے ایمان کو جانچنے والے بورڈ کے قیام کا وعدہ خلافتِ عثمانیہ کی بحالی کے لئے چلائی تحریک کو وقتی اُبال سمجھ کر اس سے دور رہنے والے قائدِ اعظم کے بنائے ملک میں اس جماعت نے کیا ہے جس کا نام بھی مسلم لیگ ہے۔ اس لیگ کے سربراہ کبھی سرآغا خان بھی ہوا کرتے تھے۔ قائد اعظم نے اس جماعت کو اپنی ذات پر ’’کافر اعظم‘‘ کے داغ لگانے کی ہر کوشش کو ناکام بناتے ہوئے اتنا توانا بنایا تھا کہ وہ انگریزوں اور ہندو قوم پرستوں کی تمام تر مخالفت کے باوجود برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک ملک حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اس ملک کو ہم پاکستان کہتے ہیں۔ اس کے قیام کا اصل مقصد مذہبی اقلیت کو اکثریت کے جبر سے محفوظ بنانا تھا۔

پاکستانیوں کی بے پناہ اکثریت خاتم النبینﷺ سے دیوانہ وار عشق کی دعویدار ہے۔ بلھے شاہ نے ’’کون آیا پہن لباس کڑے‘‘ والا سوال اٹھاتے ہوئے اس عشق میں ’’تھیا تھیا‘‘ کرنے کی روایت ڈالی تھی۔ اس عشق کے بارے میں منطقی جواز ڈھونڈنا حماقت ہے اور اس پر سوال اٹھانا بے رحمی۔ کچھ مقامات ہوتے ہیں جہاں عقل کو لبِ بام رہتے ہوئے محض محو تماشہ رہنا ہوتا ہے۔ یہ ویسا ہی ایک مقام ہے۔

اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پاکستان کے آبادی کے اعتبارسے سب سے بڑے صوبے کی ’’گڈ گورننس‘‘ کے حوالے سے مشہور ہوئی حکومت نے مگر وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے ایک بہت ہی دبنگ وزیر رانا ثناء اللہ کو ’’علماء کے ایک بورڈ‘‘ کے سامنے پیش کرے گی۔ یہ بورڈ جانے کونسے طریقے سے استعمال کرتے ہوئے یہ طے کرے گا کہ رانا ثناء اللہ واقعتا عاشقِ رسولؐ ہیں یا نہیں۔

یورپ کا ایک ملک ہے سپین۔ اس ملک میں Inquisition کی روایت عام تھی۔ لوگوں کے عقائد کا پادریوں کے ایک گروہ کے ذریعے جائزہ لیا جاتا۔ وہ ان کے بنائے معیار پر پورا نہ اترتے تو صلیب پر لٹکادئیے جاتے۔ پادریوں کے امتحان سے بچنے کے لئے سپین کے لوگ مسلم اکثریت والے ایک ملک ترکی آجاتے تھے۔ خلافتِ عثمانیہ کسی بھی مذہب کے پیروکاروں کو انتہا پسندی سے محفوظ رکھنے والی پناہ گاہ تھی۔

رومن ایمپائر نے جب آج کے شام اور فلسطین پر قبضہ کرکے عیسائی انتہاء پسندی کو فروغ دیا تو وہاں صدیوں سے مقیم یہودی پناہ کے لئے ایران بھاگنا شروع ہوگئے تھے۔ ایران ان دنوں پارسی مذہب کا مرکز شمار ہوتا تھا۔ اس ملک میں اسلام کی آمد کے بعد بھی دیگر مذاہب کے احترام کی روایت جاری رہی۔ زار کے روس میں اکثر یہودیوں کا جینا ناممکن ہوجاتا تھا۔ پناہ کی تلاش میں وہ ایران آجاتے۔ آج بھی تہران کے کئی محلے یہودیوں سے بھرے پڑے ہیں۔

وادیٔ سندھ جسے اب پاکستان کہا جاتا ہے اپنی سرشت میں ہر مذہب کی جائے پناہ رہی ہے۔ صوفیا کی خانقاہیں اور ان کے چلائے لنگر وسعتِ قلب کی اہم ترین علامتیں ہیں۔ جو بھی آئے اسے انتہائی عاجزی سے شاہ حسین کی زبان میں ’’ہور توفیق نہیں کج میرے پیو کٹورا پانی دا‘‘کہتے ہوئے کھلے دل کے ساتھ خوش آمدید کہا جاتا تھا۔

اسی زمین پر لیکن اب زاہد حامد سے استعفیٰ لیا گیا ہے۔ اپنے استعفیٰ میں سابق وزیر قانون نے بہت دُکھ کے ساتھ بتایا ہے کہ ان کا نامور خاندان ہمیشہ سے میاں میر کا مرید رہا ہے۔ زاہد حامد کے والد، دادا اور دیگر بزرگوں کی قبریں میاں میر کے مزار کے احاطے میں ہیں۔ سابق وزیر قانون کی اہلیہ بھی وہیں دفن ہیں۔ ان کی قبر کے پہلو میں زاہد حامد نے اپنی قبر کے لئے بھی جگہ مختص کررکھی ہے۔

کاش زاہد حامد کو استعفیٰ پر مجبور کرنے والے ’’خادم اعلیٰ‘‘ کو جنہیں جالبؔ کی ایک نظم بارہا سناتے ہوئے خود کو ’’انقلابی‘‘ کہلوانے کا بہت شوق ہے، یہ علم ہوتا کہ ان کے ’’تختِ لاہور‘‘ کے نواح میں موجود درگاہِ میاں میر کیا ہے۔

میاں میر قادری تھے۔ دربار واقتدار سے نفرت کرنے والے صوفی۔ شہنشاہ جہانگیر کو لاہور بہت عزیز تھا۔ اس شہر میں قیام کے دوران اس نے مغلِ سلطنت کو دکن تک پھیلانے کی مہم سوچی۔ جنگ پر روانہ ہونے سے قبل اسے کسی نے بتایا کہ میاں میر سے کامیابی کی دُعا طلب کی جائے۔ وہ اپنے شاہی پروٹوکول کے ساتھ شہر سے دور ویرانے میں بیٹھے میاں میر کے حجرے تک پہنچ گیا۔ حضوری کی مگر اجازت نہ ملی۔ انتظار کرنا پڑا۔ انتظار کی ذلت بھگتنے کے بعد میاں میر کے روبرو آیا تو طنز سے ’’درویش‘‘ کے درپردربان کی موجودگی پر حیرت کا اظہار کیا۔ معذرت خواہانہ انداز سے بے نیاز میاں میر نے اسے بتایا درویش خود کو ’’سگ ِدُنیا‘‘ سے محفوظ رکھنے کے لئے دربان رکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ دارا شکوہ نے اسی میاں میر سے خلقِ خدا سے محبت کرنا سیکھا تھا اور یہ میاں میر ہی تھے جنہوں نے سکھوں کے گولڈن ٹمپل کی بنیاد میں پہلی اینٹ رکھی تھی۔

اس میاں میر سے خاندانی اور والہانہ عقیدت مگر زاہد حامد کا تحفظ نہیں کر پائی ہے۔ داتا کی نگری جو کبھی میاں میر جیسے صوفیا کی وجہ سے ہر ایک کے لئے جائے امان تھی اب جاتی ’’امرائ‘‘ کے قبضے میں ہے۔ میرے شہر لاہور کو داتا گنج بخش، مادھولال حسین اور میاں میر کی پناہ میں لوٹنا ہوگا۔ ۔