جانے والے چلے جاتے ہیں لیکن اپنے بعد اتنا وسیع خلا چھوڑ جاتے ہیں کہ جس کا پاٹنا ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہو جاتا ہے۔ ہم میں سے اکثر حال موجود میں رہتے ہوئے حال سے سرفِ نظر کرتے ہوئے یا تو مستقبل کے بارے سوچتے رہتے ہیں یا پھر ماضی کو یاد کرکے آہیں بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حال موجود میں موجود اپنے پیاروں کی قدر کیجئے۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ جو ہمارے لئے اپنی زندگی سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں انکے بغیر رہنا ممکن نہیں ہوتا، تو کیا ہم اللہ کریم کے فیصلے کو بدل سکتے ہیں؟ ہرگز ہرگز نہیں، تو پھر کیا ہم جمود کا شکار ہو جائیں؟ ہرگز نہیں۔ تو پھر کیا کیا جائے؟
ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے جانے والوں کی دکھائی منزل کی سمت اُس ادھورے سفر کو جاری رکھیں جو ہمارے جانے والے کے سبب ادھورا رہ گیا اور انکے بعد منزل پہ یا تو پہنچ کے جانے والوں کو یاد کرکے ہنسی کا تحفہ دیں، بصورت دیگر اس سفر کی مشعل ہم اگلی نسل کے سپرد کر دیں اور داربقاء کی جانب کوچ کرجائیں۔
ہماری پچھلی نسل نے اپنی جوانی اور بڑھاپا قربان کیا ہمارے لئے، ہم اپنی جوانی اور آنے والے بڑھاپے کو قربان کر رہے ہیں آنے والی نسل کے لئے کہ آنے والی نسل کی زندگی سہل ہو اور انہیں وہ سب نہ کرنا پڑے جس کا شکار ہم ہوئے۔ وہ روگ جو ہماری جوانی کو کھا گئے، اگلی نسل اس سے محفوظ رہے۔
اور پھر اچھی اولاد وہی ہے کہ ماں، باپ جس منزل یا جس راہ پہ چھوڑ گئے ہوں آپ کا سفر اس سے آگے ہو، یہ سفر معاشرتی آسودگی، شعور، تعلیم اور بہتر نسلی بقاء کا ہو سکتا ہے۔ جیسے کہ ہمارے ابا جی کی خواہش تھی کہ وہ کالج اور یونیورسٹی جاتے، انکی زندگی میں یہ خواہش اپنے لئے پوری نہ ہو سکی، سو انہوں نے اپنی اس ادھوری خواہش کو ہم میں منتقل کیا کہ میں تو نہیں جا سکا لیکن میری اولاد ضرور جائے۔
پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ انکی اولاد سکول، کالج اور یونیورسٹی گئی نہ صرف گئی بلکہ کامیابی سے اپنی منزل پہ پہنچی۔ اسی تعلیم کے سبب ہم اپنے زندگیوں میں آسودگی محسوس کرتے ہیں۔ خود کو بہتر طور پہ باشعور سمجھتے ہیں۔ لیکن اس سب کے لئے ضروری ہے قربانیوں کی۔۔
یقیناََ ہمارے والدین نے قربانیاں دیں اور آج کا وقت تقاضا کر رہا ہے کہ ہم اپنے والدین کے گلشن کی آبیاری کے لئے مزید قربانیوں سے دریغ نہ کریں، انشاء اللہ اگلی نسل کا قافلہ اپنی منزل سے مزید قریب ہو جائے گا۔
آج ہم جو کچھ بھی ہیں، ہم میں شعور، آگہی، تعلیم کی رمق نظر آتی ہے تو اس سبب کہ ہمارے ابا جی نے قربانیاں دیں اور ہمارے لئے اس رستے کا انتخاب کیا۔ گو یہ راستہ کٹھن ہے لیکن اس کٹھن راستے کی منزل بہت خوب صورت ہے۔ اگر منزل خوبصورت ہو تو منزل پہ پہنچ کے رستے کی کٹھنائیاں بھول جاتی ہیں۔
آج 16 مئی 2025 ہے، آج ابا جی ہم سے بچھڑے ہوئے پورے 4 سال ہو چلے ہیں۔ آج کے دن میں اپنے ابا جی سے مخاطب ہو کہ کچھ کہنا چاہتا ہوں۔۔
ابا جی، میں آپ کے دکھائے رستے پہ گامزن ہوں، آپ کی نسل کی ترقی کے لئے کوشاں، آپ کی تمام اولاد اسی رستے کی مسافر ہے۔ میری خواہش ہے کہ میری ملاقات آپ سے اس حالت میں ہو کہ آپ مجھ سے کہیں کہ اچھا، میری اولاد کے لئے اچھا کر آئے ہو۔ میری غیر موجودگی میں میری اولاد سے دغا نہیں کیا۔ میرے اس سفر کا انعام آپ کی وہ مسکراہٹ ہوگی جو وقتِ ملاقات آپ مجھے عطاء کریں گے۔
میں آپ کے بنا ادھورا ہوں، میری تکمیل آپ سے ہے اور میں اپنی تکمیل کی جانب گامزن ہوں۔