1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. ”جی حضور“ سے ”حضور“ تک

”جی حضور“ سے ”حضور“ تک

تقریباََ تین ہفتے قبل ایک دوست نے رات کے کھانے پر بلارکھا تھا۔ زیادہ مہمان وہاں چند غیر ملکی تھے جو تعلیم وصحت کے شعبوں میں حکومتِ پاکستان کو معاونت فراہم کرتے ہیں۔ وہاں ایک ایسے مہربان بھی موجود تھے جو عملاََ سیاست میں حصہ نہیں لیتے لیکن اس کھیل کے اہم کرداروں سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ ان رابطوں کی وجہ سے Whatsappگروپس والے بھی اکثر ان سے رجوع کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

کھانا میز پر لگ رہا تھا کہ وہ دوست میرے پاس آئے اور ایک کونے میں لے گئے۔ موبائل فون پر انہیں Whatsappکے ذریعے ایک سوال آیا تھا: ”کیا نواز شریف نے پرویز رشید کو سینٹ کا آئندہ چیئرمین منتخب کروانے کا فیصلہ کرلیا ہے؟“مہرباں دوست نے یہ سوال دکھا کر میری رائے طلب کی۔

عرصہ ہوا پرویز رشید سے میری ملاقات نہیں ہوئی۔ سیاست دانوں کے ساتھ ٹیلی فون پر گپ شپ لگانے کی مجھے عادت نہیں۔ پرویز رشید کا فون ویسے بھی کافی ”محفوظ“ ہے۔ میرے دیرینہ دوست ہیں۔ ان کے ساتھ مگر اکیلے میں بھی ملاقات ہوجائے تو ”اندر کی بات“ ہرگز نہیں بتاتے۔ اپنے اس تجربے کی وجہ ہی سے میں مسلسل اصرار کرتا رہا کہ جس خبر کے 6 اکتوبر2016 کی صبح ڈان اخبار میں چھپنے پر بہت ہنگامہ ہوا تھا وہ سیرل المیڈا کو پرویز رشید کے توسط سے مل ہی نہیں سکتی۔ ”خبر“ کے معاملے میں پرویز رشید اتنے محتاط ہیں کہ ان سے مل کر مجھ ایسے رپورٹر کو ہمیشہ مایوسی ہوتی ہے۔ دوستانہ شفقت ومحبت مگر اتنی گرم جوش ہے کہ تعلق ان سے توڑنا بھی ناممکن ہے۔

بہرحال کونے میں لے جاکر Whatsappپیغام دکھانے والے دوست کو میں نے برجستہ بتادیا کہ اگرچہ میری پریز رشید سے عرصہ ہوا کوئی ملاقات نہیں ہوئی ہے مگر موصوف کے چیئرمین سینٹ بننے والی ”خبر“ مجھے بے بنیاد محسوس ہورہی ہے۔ ان دنوں کے سازشی ماحول میں یہ ”خبر“ بلکہ قاتلانہ Disinformationہے۔ Fake News۔ مقصد جس کا فقط نواز شریف کے مخالف کیمپ میں تھرتھلی مچانا ہے۔ اس بات کو یقینی بنانا کہ نون کے لاحقے والی مسلم لیگ سینٹ کے انتخابات میں ضرورت سے زیادہ نشستیں نہ حاصل کر پائے۔

ہفتے کے دن سینٹ کی خالی ہوئی نشستوں کوپُر کرنے کے لئے انتخابات ہوگئے۔ نون کے لاحقے والی مسلم لیگ نے تقریباََ اتنی ہی نشستیں حاصل کیں جتنی میرے حساب میں آئی تھیں۔ چودھری سرور کا ایوانِ بالا میں پہنچنا بھی کم از کم میرے لئے حیران کن نہیں تھا۔ نتائج آجانے کے بعد سے اب قیاس آرائیوں کی ساری توجہ سینٹ کے نئے چیئرمین کو ڈھونڈنا ہے۔

ممکنہ چیئرمین سینٹ کا نام ڈھونڈنے کے لئے سید طلعت حسین نے اتوار کی شب اپنے شو میں وزیر اعظم کے مشیر مصدق ملک سے سوال کیا تو بہت سادگی وپرکاری سے انہوں نے پرویز رشید کا نام چلادیا۔ مجھے 3 ہفتے قبل والا واقعہ یاد آگیا۔

پرویز رشید کے ساتھ میری اس واقعہ کے بعد سے بھی کوئی ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ سیاست دانوں کے ساتھ ٹیلی فون پر گپ شپ لگانے کا عادی نہیں۔ نواز کیمپ کے اندرونی حلقے جو گیم لگارہے ہیں اس کے بارے میں اعتماد سے کوئی دعویٰ نہیں کرسکتا۔ ایک بات مگر بہت سوچ بچار کےساتھ کہی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ پرویز رشید کا نام چلایا ضرور جائے گا مگر بالآخر پنجابی والی ”سجی“ دکھا کر ”کھبی“ ماردی جائے گی۔ شاید ”ہما“ اس ضمن میں راجہ ظفر الحق صاحب کے سربٹھانے کی کوشش ہوگی۔ لائن نظر بظاہر نون کے لاحقے والی مسلم لیگ میں اب شہباز شریف کی چلے گی۔ اس لائن کا ہدف نیویں نیویں رہ کر کسی نہ کسی صورت ا ٓئندہ انتخابات کا بروقت ہونا یقینی بنانا ہے اور ہر صورت وہ سمجھوتے بھی جو نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کھڑے امیدواروں کے انتخابی عمل میں موجودرہنے کو یقینی بنائیں۔

موجودہ حالات میں پرویز رشید کو چیئرمین سینٹ بنانے کی کوشش ہوئی تو نواز مخالف کیمپ میں تھرتھلی مچ جائے گی۔ آج سے چند ہفتے قبل نون لیگ کے ”ترجمان“ سمجھے اخبار میں نمایاں طورپر ایک خبر شائع ہوئی تھی۔ اس میں دعویٰ ہوا کہ شاہد خاقان عباسی کے حکم پر وزارتِ قانون بہت خفیہ انداز میں ایک ایسی آئینی ترمیم تیار کررہی ہے جو پارلیمان سے پاس ہوگئی تو آئندہ انتخابات سے قبل ہی سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال سے گھٹاکر 60 سال کردی جائے گی۔

”خبر“محض اتنی تھی لیکن Whatsappوالے ”ذرائع“ کی معرفت بات یہ بھی پھیلائی گئی کہ مجوزہ ترمیم ہی کی بدولت عسکری قیادت کے کسی افسر کو بریگیڈئر سے آگے بڑھانے والے اختیارات میں سول حکومت ”وزارتِ دفاع“ کے نام پر اپنا حصہ بھی یقینی بنائے گی۔ معاملہ اس کے بعد دو آتشہ ہوگیا۔ یہ بات ضروری ٹھہری کہ سینٹ کے انتخابات سے قبل مسلم لیگ کو جھٹکاملے۔ بلوچستان اسمبلی اس ضمن میں بہت کام آئی۔ ثناءاللہ زہری فارغ ہوئے۔ قدوس بزنجونے ان کی جگہ لی۔ بلوچستان کے ”محب وطن مسلم لیگی“ جیت گئے۔ اچکزئی اور ڈاکٹر مالک بے اثر ہوگئے۔ سینٹ کا چیئرمین منتخب کرنے میں بلوچستان سے ہفتے کے روز منتخب ہوئے اراکین کا کردار اب تقریباََ فیصلہ کن ہوجائے گا۔ ان کے ہوتے ہوئے پرویز رشید کا چیئرمین سینٹ منتخب کروانا ممکن نظر نہیں آرہا۔

اصل قصہ مگر اب بھی اس آئینی ترمیم سے جڑا ہوا ہے جس نے نواز مخالف کیمپ میں تھرتھلی مچارکھی ہے۔ تھرتھلی سے متاثر ہوئے اذہان مگر یہ سوچنے کا تردد ہی نہیں کررہے کہ موجودہ حالات میں پیپلز پارٹی کے بھرپور تعاون کے بغیر ایوانِ بالا سے کوئی ”تخریبی“ ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کروانا ناممکن ہے اور پیپلز پارٹی آئندہ انتخابات سے قبل نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کی مشکلات آسان بنانے کو تیار نہیں ہوگی۔ جو بھی ہونا ہے آئندہ انتخابات کے نتائج آنے کی وجہ سے نمودار ہونے والے ماحول کی بدولت ہونا ہے۔ نواز کیمپ نے ان انتخابات کو ”ریفرنڈم“ کی صورت دے کر میدان جیت لیا تو اقتدار میں آنے کے پہلے 100 دنوں میں وہ بہت کچھ کرسکتی ہے۔ فی الوقت نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کی پہلی ترجیح مگر ہر صورت بروقت انتخابات تک پہنچنا ہے اور اس ہدف کو ذہن میں رکھتے ہوئے وہ کسی بھی غیر ضروری پنگے میں اُلجھنا نہیں چاہے گی۔

ذرامنطقی ذہن سے سوچیں تو یہ وقت نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کے لئے بہت کڑا ہے۔ نواز شریف اور ان کی دُختر کے جلسے یقینا بہت پُرہجوم اور پُرجوش ہیں۔ لودھراں کے بعد سرگودھا کا ضمنی انتخاب بھی حکمران جماعت نے حیران کن اکثریت کے ساتھ جیتا ہے۔ نواز شریف کے خلاف مگر احتساب عدالت میں تقریباََ روانہ کی بنیاد پر مقدمات بھی چلائے جارہے ہیں۔ راولپنڈی کی لال حویلی میں بیٹھ کر دائمی حکمرانوں کے دلوںمیں آئے خیالات جاننے والے صاحب کشف بارہا اعلان کرچکے ہیں کہ نواز شریف مارچ کے اختتام تک جیل بھیج دئیے جائیں گے۔ کشف کے سلسلے میں اب عمران خان صاحب بھی کافی بااعتماد ہوچکے ہیں۔ ان کی نگاہ بھی نواز شریف اور مریم نواز کو اس ماہ کے اختتام تک اڈیالہ جیل جاتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔

ان دو صاحبانِ کشف کی بات درست ثابت ہوئی تو نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کو سیاسی کارکنوں کی اشدضرورت ہوگی۔ اس جماعت کا ضمیر بنیادی طورپر جی حضوری ہے۔ ”جی حضور“ سے ”نہیں حضور“ کے مقام تک تو پہنچنے کے لئے ایک طویل سیاسی جدوجہد درکار ہے۔ پرویز رشید اس حوالے سے کافی کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔ چیئرمین سینٹ بن کر وہ احتجاجی سیاست کے لئے ناکارہ ہوجائیں گے۔